text
stringlengths 48
178k
| timestamp
timestamp[us]date 2013-05-18 05:25:54
2020-08-15 21:42:23
| url
stringlengths 18
1.65k
|
|---|---|---|
غیر قانونی ٹیکسز کی مخالفت بھی غداری ہے؟ تحریر : شیرنادر شاہی – Gilgit-Baltistan’s first online premier news network
ضلع نگر ولادت حضرت امام حسین علیہ السلام کی مناسبت سے عوامی پولو گرائونڈ چھلت میں بڑا پروگرام۔
استور میں شدید بارشوں کے باعث عیدگاہ اور گوریکوٹ میں سٹرکیں تالاب کا منظر پیش،ٹریفک بُری طرح متاثر۔
پیسے لیکر ترقیاتی کام مکمل نہیں کرنے والے ٹھیکدار جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کی تیاری کریں۔ کمشنر دیامر کا دبنگ اعلان
جب تک روایتی سیاست چلتی رہے گی غریب عوام باریوں میں پستے رہیں گے۔ رہنما تحریک انصاف
سی پیک کے گیٹ وے پر موجود سوست ڈرائی پورٹ کی این ایل سی کو حوالگی ایک معمہ بن گئی۔
متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کا اپنے حقوق کیلئے جلسہ، ہجرت کرنے سے صاف انکار۔
ضلع نگر کے عوام صاف پانی کو ترس گئے، ندی میں نالے کی گندے پانی کی ملاوٹ سے بیماریاں پھوٹ پڑنے کا خدشہ۔
ضلع نگر تحصیل چھلت شینبر بر ویلی روڑکی تعمیر میں تاخیر پر وزیر اعلیٰ کے سازش ہونے کے انکشاف کے بعد میں عوامی حلقوں میں تشویش لہر۔
بابوسر روڈ پر بہت جلد کام شروع کیا جائے گا۔ ڈی سی دیامر
خارجہ پالیسی میں کوئی کنفیوز ن نہیں ،بھارت پاکستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ دفتر خارجہ
پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کو زبردست سیاسی جھٹکا، اہم اور سرگرم جیالا کپتان کے پیارے ہوگئے۔
جدید طرز تعمیر اور سہولیات سے آراستہ نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ افتتاح کیلئے تیار۔
کشمیر کا گلگت بلتستان سے کوئی تعلق نہیں، ممبر قانون ساز اسمبلی کا مضحکہ خیز بیان ۔
ضلع نگر میں محکمہ فشریز کے ملازمین کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم،ذمہ داران غائب۔
انجمن تاجران ضلع نگرچھلت شینبر کا الیکشن۔ نئے عہدے داران کا منتخب۔
غیر قانونی ٹیکسز کی مخالفت بھی غداری ہے؟ تحریر : شیرنادر شاہی
in کالمز December 30, 2017 0 48 مناظر
گلگت بلتستان پچھلے کئی ہفتوں سے احتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور لانگ مارچ کی زد میں ہے اس کی بنیادی وجہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوانوں میں پہنچنے والے نام نہاد نمائندوں کی غفلت اور عوام سے زیادہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے مسائل سے رو گردانی اختیار کرنا ہے، عوامی نمائندوں کا کام عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کرنا، ان کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا، ان کے حقوق ان کی دہلیز تک پہچانا ، ان کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے کے علاوہ ان کے خلاف ہونے والی بیرونی شازشوں کا سینہ تان کر مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور اسی لئے عوام اپنا ضمیر(ووٹ) ان نمائندوں کو دے دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں سارا نظام اس کے برعکس ہے الیکشن کے دنوں میں گھر گھر جا کر عوام کے ساتھ جھوٹے وعدے اور سہانے خواب دکھا کر اسمبلی تک پہنچنے والے جیتنے کے بعد عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے لگتے ہیں اور ان کی نمائندگی کرنے کے بجائے اپنے آقاؤں کے ساتھ مل کر عوام کش پالیسیاں بناتے ہیں اور جب عوام اس کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ اس حد سے گزر جاتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں عوامی ایکشن کمیٹی نے گندم سبسڈی خاتمے کے خلاف بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا کیونکہ یہ گلگت بلتستان کے عوام کا بنیادی حق تھا اور پچھلے ستر سالوں سے صرف گندم سبسڈی کے لئے اپنی آزادی قربان کرنے والی قوم کے سر سے سبسڈی بھی اٹھ جائے تو ہمسایہ ریاست کا کونسا احسان یاد کرنے کے قابل رہ جاتا ہے ، ہفتوں تک روڑ پر دھرنے دینے والے عوام کو حکومت وقت نے غدار اور ایجنٹ جیسے القابات سے نوازا اور ان پر دیگر الزامات بھی لگائے گئے حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ نام نہاد صوبائی حکومت کے منتخب نمائندے وفاقی حکومت سے خود یہ التجا کرتے کہ سبسڈ ی کا خاتمہ عوام دشمنی کے مترادف ہے کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام پہلے ہی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اگر سبسڈی ختم ہوا تو لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن اس کے برعکس مہدی سرکار نے عوام کے خلاف ہی فیصلہ سنا دیا لیکن سلام ایکشن کمیٹی اور عوام کو جو اپنے مطالبات سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے اور بالآخر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں اور مطالبات منظور کر دیئے۔
پچھلے ایک ماہ سے گلگت بلتستان کے عوام ایک بار پھر اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے اپنوں اور غیروں کے ظلم و ستم کے سامنے بھرپور احتجاج کر رہے ہیں اور پرامن احتجاج ہر شہری کا بنیادی و جمہوری حق ہے ایک طرف حکومت نے متنازعہ خطے کے غریب عوام پر ”No taxation without representation“ کے عالمی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ٹیکس ایڈپٹیشن ایکٹ کی مد میں غیرقانونی اور غیر آئینی ٹیکسز مسلط کی ہیں اوپر سے پرامن احتجاج کرنے والوں کے خلاف دن بدن نت نئے پروپیگنڈے بھی کر رہی ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیر اعلیٰ اور دیگر ممبران اسمبلی خود بخود ایسے عوام کش پالیسیوں کے خلاف وفاقی حکومت کے سامنے سراپا احتجاج بنتے اور یہ باور کراتے کہ گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے اور اس علاقے پر پاکستانی آئین کا اطلاق نہیں ہوتا تو یہاں ٹیکسز کا نفاذ عالمی قوانین کی خلاف ہے لیکن ایسے جرات مندانہ اقدام نام نہاد عوامی نمائندوں سے رکھنا فضول ہیں کیونکہ یہ عوام کے بجائے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے کس حد تک جاسکتے ہیں اس کا اندازہ وزیر اعلیٰ، وزراء، ممبران اسمبلی حتیٰ کہ میڈیا کوارڈینٹرز کے مسلسل غیر سنجیدہ بیانات، الزامات اور نامناسب باتوں سے واضح ہوگیا۔ وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان اور ان کی کچن کیبنٹ کی طرف سے عوامی ایکشن کمیٹی، انجمن تاجران اور عوام گلگت بلتستان پر لگائے جانے والے الزامات افسوسناک ہیں کیونکہ خطے کے اندر اٹھنے والی پرامن تحریک کے مطابات حل کرنے کے بجائے ان کو بیرونی ایجنڈا اور تحریک کے مقامی رہنماؤں کو بیرونی ایجنٹ قرار دینا غلط حرکت ہے اور ان کے نتائج بھی برے آ سکتے ہیں کیونکہ پاکستانی حکمرانوں اور ان کے مقامی آلہ کاروں نے اسّی کی دہائی میں حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی پرامن قوم پرست تحریکوں کے قائدین پر بھی اسی طرح کے بے ہودہ الزامات لگایا تھا تاکہ عوام ان سے دور رہے لیکن یہ حکومت اور ریاست کو مہنگا پڑ گیا کیونکہ آج نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان تحریکوں میں شامل ہیں اور ان کے نظریات کو تقویت مل رہی ہے جبکہ حکومتی جھوٹے الزامات بے بنیاد ثابت ہورہے ہیں لیکن اس وقت حکومت بجائے الزامات لگانے کے ان تحریکوں کے جائز مطالبات پوری کرتی یا ان قوم پرستوں کو مناتی تو آج حالات بالکل مختلف ہوتے۔ آج پاکستان مسلم لیگ کی مقامی حکومت عوامی ایکشن کمیٹی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے حالانکہ ان کے مطالبات بالکل جائز اور عالمی قوانین کے مطابق ہیں کیا متنازعہ علاقے میں ٹیکسز کا نفاذ قانونی ہے؟ کیا آئین میں شامل کئے بغیر پاکستان کے اسمبلیوں میں نمائندگی دیئے بغیر ٹیکسز لگانا جائز ہے؟ کیا حکومت خود گلگت بلتستان کو متنازعہ نہیں سمجھتی؟ اگر گلگت بلتستان متنازعہ ہےاور پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی میں یہاں کے دو ملین عوام کی نمائندگی نہیں ہے تو پھر جابرانہ ٹیکسز کا نفاذ کس قانون کے تحت؟ اور ان غیر قانونی ،جابرانہ و غنڈہ ٹیکسز کے خلاف آواز اٹھانے والے پرامن عوام بیرونی ایجنٹ یا غدار کیسے؟
حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے غیر قانونی ٹیکسز کو فی ا لفور ختم کر ے اور پرامن عوام پر فرقہ واریت اور بیرونی ایجنٹ ہونے کے الزامات لگاکر انہیں بدنام کرنے اور اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کے بجائے اپنے آمرانہ رویے پر عوام سے معافی مانگیں۔
آئینی حقوق، گلگت،بلتستان،پاکستان سٹیٹ سبجیکٹ،گلگت بلتستان،کشمیر،مہاراجہ،قانون،وفاق،پاکستان ٹیکس، گلگت بلتستان،حکومت 2017-12-30
Previous: حفیظ الرحمان سے تصدیق شدہ ایجنٹوں کو عوامی بیداری تحریک کے چیئرمین نے کیا کہا اپ جان کر حیران ہونگے
Next: سال 2017 کے پسندیدہ ترین اسمارٹ فونز پر سروے مکمل۔
جانور اور قانون سازی
| 2018-04-21T00:08:49
|
http://tehreernews.com/?p=4890
|
”میزبان نے کپورے کاٹ کر رکھے ہوئے تھے، جب شنیرا نے
”میزبان نے کپورے کاٹ کر رکھے ہوئے تھے، جب شنیرا نے دیکھا تو۔۔۔“ وسیم اکرم نے اہلیہ کیساتھ پیش آنے والا مزاحیہ ترین واقعہ سنا دیا، اہلیہ کو پتہ چلا تو انہوں نے ایسی ٹویٹ کر دی کہ سوشل میڈیا پر ہنسی کا طوفان آ گیا
”میزبان نے کپورے کاٹ کر رکھے ہوئے تھے، جب شنیرا نے دیکھا تو۔۔۔“ وسیم اکرم نے ...
May 07, 2017 | 14:48:PM 2:48 PM, May 07, 2017
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) سوئنگ کے سلطان حقیقی زندگی میں بھی ’یارکر‘ مارنے سے باز نہیں آتے اور اپنی آسٹریلوی اہلیہ شنیرا اکرم کیساتھ پیش آنے والا ایسا واقعہ سنا دیا کہ سٹوڈیو میں بیٹھے تمام افراد کا ہنسی سے برا حال ہو گیا۔
وسیم اکرم نے بتایا کہ ”2 سال پہلے میں اور شنیرا ایک گھر میں کھانے پر گئے تو انہوں نے قیمے میں کپورے ڈالے ہوئے تھے، جو کٹے ہوئے تھے ، شنیرا نے سمجھا کہ یہ ’مشرومز‘ ہیں، اس نے جیسے ہی دیکھا تو کہا کہ واﺅ! مشرومز، میں نے اس وقت اسے کھانے دیا ،لیکن جب میں نے اس کو بعد میں بتایا کہ جو وہ کھا کر آئی ہے حقیقت میں وہ کیا، تو ششدر رہ گئی لیکن پھر بڑا انجوائے کیا ۔“
Meri wife gai dinner per tu host nay Kapooray kaat ker rakhy huay. Wo boli "Oh Mushrooms". Khanay k baad bataya yea kya thy - Wasim Akram ???????? pic.twitter.com/FL7eTT2zrz
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس پروگرام میں وسیم اکرم نے واقعہ سنایا وہ سوشل میڈیا پر بھی آ گیا اور شنیرا ’بھابھی‘ کی نظر سے بھی گزرا تو وہ بھی اپنی رائے کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکیں۔ انہوں نے اپنے پیغام میں لکھا کہ ”واقعی؟ اور میں یہاں یہ سوچ رہی ہوں کہ تم کام پر کرکٹ کی بات کرنے جاتے ہو۔۔۔“
Really @wasimakramlive ? And here I am thinking you go to work to talk about cricket..... #sleepingonthecouch #GameOnHai https://t.co/uBzPkldB0H
شنیرا اکرم کا ٹویٹ وسیم اکرم تک پہنچا تو انہوں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ” کوئی فکر نہیں۔۔۔! لیکن یہ کہانی بتانے لائق تھی۔“
No worries @iamshaniera, but that story was totally worth it https://t.co/NJuuE93Nvt
— Wasim Akram (@wasimakramlive) April 25, 2017
| 2019-10-15T21:40:40
|
https://dailypakistan.com.pk/07-May-2017/573051
|
جے این یو حملے کے خلاف نکلا ’شہریوں کا مارچ‘.
• بائیڈن کے امریکہ میں کوئی محفوظ نہیں ہوگا:ٹرمپ• برازیل میں کرونا سے 70000 سے زیادہ افراد ہلاک• کپوارہ میں ایل او سی پر گھات لگا کر دو جنگجوؤں کو ہلاک کردیا: فوج• ملک میں کورونا وائرس:ریکارڈ 27 ہزار نئے کیسز،ہلاکتیں 519• وزیر اعظم مودی نے’من کی بات‘ کے لئے تجاویزات طلب کیں• دنیا بھرمیں کورونا سے اب تک 5.60 لاکھ افراد ہلاک
جے این یو حملے کے خلاف نکلا ’شہریوں کا مارچ‘
Thu 09 Jan 2020, 20:43:57
نئی دہلی، 09 جنوری (یو این آئی) ملک کےممتاز سیاسی رہنماؤں، دانشوروں اور اساتذہ نے قومی راجدھانی دار الحکومت نئی دہلی میں جمعرات کو جواہرلعل نہرو یونیورسٹی (جے یو این) میں نقاب پوشوں کے حملے کے خلاف ’شہریوں کا مارچ‘نکال کر وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کو برخاست کرنےکا مطالبہ کیا۔ طلبہ کے خلاف کے گئے حملے کی مخالفت میں شہریوں کے مارچ نے غیرجانبدار عدالتی تفتیش کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم ) کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری، سی پی آئی ایم کے سابق جنرل سکریٹری پرکاش کرات، سابق راجیہ سبھا رکن برندا کرات، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ، معروف سوشلسٹ رہنما شرد یادو، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے رہنما اورراجیہ سبھا کے رکن منوج جھا، ممتاز وکیل پرشانت بھوشن سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے قومی دار الحکومت کے منڈی ہاؤس سے وزارت فروغ انسانی وسائل کے سامنے تک مارچ کیا۔ اس میں جے این یو کے اساتذہ اور طلبہ سمیت دہلی یونیورسٹی (ڈی یو) جامعیہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) اور امبیڈکر یونیورسٹی کے طلبہ و اساتذہ نے حصہ لیا۔
ریلی میں شرکت کرنے والے طلبہ اورا ساتذہ نے اپنے اپنے ہاتھوں میں تختیاں اور بینر لیے مسٹر جگدیش کمار کے اس حملے میں شریک ہونے کا الزام عائد کیا اور مودی حکومت سے انھیں علیٰ الفور برخاست کرنے کا مطالبہ کیا اور نقاب پوش حملہ آوروں کو بلا تاخیر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ۔ مرلی منوہر پرساد سنگھ اور جے این یو ٹیچرس اسوسی ایشن اور جے این یو طلبہ یونین (اسٹوڈنٹس یونین ) کی رہنما وغیرہ بھی شامل تھیں۔
| 2020-07-13T02:00:06
|
https://www.etemaaddaily.com/specials-news/citizens-march-against-jnu-attack:65670
|
فیصلہ 4 دن بعد - Khouj News
فیصلہ 4 دن بعد
اصغر خان کیس میں ایف آئی اے کی تحقیقاقی کمیٹی کی جانب سے سابق آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف کی طلبی کا فیصلہ پیر کو کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق اصغر خان کیس میں احسان صادق کی سربراہی میں کمیٹی تحقیقات کو آگے بڑھانے کے لیے طریقہ کار پر خصوصی پیپرز لکھ رہی ہے جسے 'اسٹریٹجک دستاویز' کا نام دیا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اسٹریٹجک پیپر میں انکوائری کو حتمی نتیجے پر پہنچانے کے لیے طریقہ کار تحریر ہوگا جب کہ نامزد ملزم سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر کی طلبی کا فیصلہ بھی 21 مئی کو کیا جائے گا۔
شوبز34 mins پہلے
| 2018-05-21T08:44:14
|
https://khouj.com/18/05/2018/32279/
|
مقداریہ سہل - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
(Quantitative Easing سے رجوع مکرر)
سانچہ:Public finance مقداریہ سہل[1][2] ایک غیر روایتی مالی حکمت عملی ہے جو مرکزی مصرف معیشت میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے اس وقت استعمال کرتے ہیں جب روایتی مالی حکمت عملی موثر ثابت نہ ہو رہی ہو۔ مرکزی مصرف مالی اثاثے خریدتے ہیں تاکہ ایک معلوم مقدار کا پیسہ معیشت میں ڈالا جائے۔ یہ روایتی حکمت عملی سے ممیز ہے جس میں حکومتی بند خریدے یا فروخت کیے جاتے ہیں تاکہ شرح سود معینہ نشانہ قدر پر رہے۔
2007 سے شروع ہونے والے زبردست مالی بحران[3] نے امریکا اور یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور ان ممالک کی معیشتوں کے بالکل بیٹھ جانے کا خطرہ ہو گیا ہے۔ ڈر اس بات کا بھی ہے کہ لوگوں کا کاغذی سکّہ رائج الوقت سے اعتبار ہی نہ اٹھ جائے جیسا کہ سونے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے اندازہ ہو رہا ہے۔ امریکا میں فیڈرل ریزرو، انگلستان میں بینک آف انگلینڈ اور یورپ میں یورپی مرکزی بینک نے کاغذی سکّہ رائج الوقت بڑی مقدار میں چھاپ کر دوسرے بینکوں سے مال خریدنا شروع کر دیا ہے تا کہ زیر گردش نوٹوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور معیشت رواں رہے۔ اس حکمت عملی کو "مقداری تسہیل" [4][5] کا نام دیا گیا ہے۔ امریکا میں پہلی مقداری تسہیل نومبر 2008 سے مئی 2010 تک جاری رہی۔ دوسری مقداری تسہیل نومبر 2010 سے جون 2011 تک جاری رہی۔ تیسری مقداری تسہیل 13 ستمبر 2012 سے شروع کی گئی ہے جس میں ہر ماہ 40 ارب ڈالر چھاپے جائینگے۔[6] یعنی ہر گھنٹے میں ساڑھے پانچ کروڑ۔ یہ مقدار دنیا بھر میں ہر گھنٹے میں بازیاب ہونے والے سونے کی مالیت سے پانچ ہزار گنا زیادہ ہے۔ دنیا کے دوسری کاغذی سکّہ رائج الوقت اس کے علاوہ ہیں۔
یہ مرکزی بینک اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے وفاقی ذخائر کی شرح سود میں اضافہ نہیں ہونے دے رہے جو ٹیلر کے اصول کے مطابق نوٹ زیادہ چھاپنے کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اندازہ ہے کہ امریکا میں 5 ٹریلین ڈالر اس عرصہ میں مقداری تسہیل کے نام پر چھاپے گئے۔ یہ اتنی بڑی مقدار ہے کہ بچے بوڑھے سمیت ہر امریکی کو 17000 ڈالر دیے جا سکتے تھے۔[7] اور اس طرح حاصل ہونے والا معیشت کو بڑھاوا زیادہ نمایاں بھی ہوتا۔
منطتقی بات یہ ہے کہ اگر زبوں حال معیشت کے لیے مقداری تسہیل اتنی ہی کارآمد چیز ہے تو اسے مستقل بنیادوں پر کیوں نہیں اپنا لیا جاتا؟ صرف برے وقت میں ہی کیوں اس سے استفادہ کیا جاتا ہے؟ وجہ صاف ہے کہ مقداری تسہیل سے ملنے والا سہارا عارضی ہوتا ہے اور بعد میں اس کی قیمت زبردست افراط زر ( مہنگائ ) کی شکل میں چکانی پڑتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے مرکزی بینکوں کے مالکان حکومتوں کی مدد سے عوام کو نچوڑ رہے ہیں۔[8][9]
↑ "Loose thinking". The Economist. 15 October 2009. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. تحقق من التاريخ في: |archive-date= (معاونت)
↑ "Global Financial Crisis Timeline: 2007-2012". usfn.org. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. تحقق من التاريخ في: |archive-date= (معاونت)
↑ "QE3: What is quantitative easing? And will it help the economy?". بلاگ واشنگٹن پوسٹ.
↑ "Quantitative easing explained" (بزبان انگریزی).
↑ "the-fed-should-stop-paying-banks-not-to-lend". نیویارک ٹائمز. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. تحقق من التاريخ في: |archive-date= (معاونت)
↑ "Bernanke-on-fed-policies". theblaze. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. تحقق من التاريخ في: |archive-date= (معاونت)
↑ "root cause of poverty" (PDF) (بزبان انگریزی).
↑ "دنیا کے آٹھ سب سے بڑے مرکزی بینک اور انکا کاغذی سکّہ رائج الوقت چھاپنا". ritholtz. 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ. تحقق من التاريخ في: |archive-date= (معاونت)
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=مقداریہ_سہل&oldid=3735087»
| 2020-04-06T15:58:43
|
https://ur.wikipedia.org/wiki/Quantitative_Easing
|
سپیکرقومی اسمبلی نے نئی حلقہ بندیوں کے لیے پارلیمانی راہنماﺅں کا اجلاس طلب کر ..
سپریم کورٹ نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نا اہلی کے حوالے سے کیسز کا فیصلہ محفوظ کرلیا
منگل 14 نومبر 2017 - 18:08
عمران خان کا خیبرپختونخواہ میں اگلے پانچ سالوں میں مزید دوارب درخت اگانے کا اعلان
منگل 14 نومبر 2017 - 17:51
عام انتخابات اپنے وقت پر ہونے چاہئیں اور اس حوالہ سے تمام سیاسی جماعتوں کو یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے،
منگل 14 نومبر 2017 - 17:45
ہانگ کانگ، قتل کے شبہ میں دو پاکستانی گرفتار
اعتزاز احسنبنوںپٹھان کوٹ ائیربیس حملہبن لادنفیصل رضاعابدیجی ٹی روڈجمشید دستیمخدوم محمد زمان طالب المولیٰمیٹروپنجاب یونیورسٹیاے این پیلیزر تھیراپیاسفندیارولی خاندرآمدسردیوںپولوپیٹرولشریف برادرانسلمان تاثیریوئیفا یورو 2016
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14نومبر۔2017ء) سپیکرقومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے نئی حلقہ بندیوں سے متعلق پارلیمانی راہنماﺅں کا اجلاس کل شام 4بجے پارلیمنٹ ہاﺅس میں طلب کر لیا۔ حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس 16 نومبر کو طلب کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔قومی اسمبلی سے جاری اعلامیہ کے مطابق اجلاس حلقہ بندیوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اجلاس میں قومی اسمبلی میں موجود پارلیمانی قائدین شرکت کریں گے۔دوسری جانب نجی ٹی وی نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایاہے کہ حکومت نے 16نومبر کو قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ بھی کیاہے۔ اجلاس میں نئی حلقہ بندیوں کے آئینی ترمیمی بل کی منظوری حاصل کی جائے گی۔حکومتی اور اتحادی ارکان کو اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد آئینی ترمیم کی جلد از جلد سینٹ سے بھی منظوری حاصل کی جائے گی۔ آئینی ترمیم کی پارلیمنٹ سے منظوری کی بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کا کام شروع کرے گا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ہائرایجوکیشن کمیشن کی طرح پرائمری ایجوکیشن کمیشن بھی بنایا جائے، پرائمری ایجوکیشن تعلیم کی نرسری ہے، اس کو مضبوط کیے بغیر ملک میں اعلیٰ تعلیم مضبوط نہیں ہوسکتی اور تعلیم کو موثر و مستحکم کیے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ وہ گزشتہ روز ہمدرد یونی ورسٹی کی سلور جوبلی کی افتتاحی ... مزید
وقت اشاعت : 14/11/2017 - 17:38:54
| 2017-11-25T09:43:09
|
https://daily.urdupoint.com/livenews/2017-11-14/news-1287228.html
|
ماہءَ گوش کتگ ات | Zrombesh زرمبش
” نازینیں وتی لالءَ را لکّ مرادیں کسان سالءَ را
وش بوئیں زباد مالءَ را در گپّیں شکر گالءَ را
لولی لول منی لال ءَ را عمرءِ گڈ سری مالءَ را
ماہءَ نوکی گوش کتگ ات ؛ شپ کشّءَ وتی راہءِ نیم بُرّاتگ ات و پراھیں آسمانءِ دیما ، چہ بے حسابیں دگہ مزن و کسانیں استاراں درپشناکترات ۔ ماہءِ نگرھیں رژن ، شپءِ بیمناکیں تھاریءَ ماں ماھکانیءَ بدل کنان ات ۔ نرمکیں وشگوات ، بشانگانی تھا وپتگیناں گرانواب کنان ات ۔ درستیں سرندہ و پرندہ ، ایر سرپتگ و وشواب اتنت ۔
ھما شپءَ ،” گزدان”ءِ رودرآتکءَ ، مھراب و آییءِ لوگ بانک ھانیءِ شش تک و شش بندیں بشانگ بستگ ات ۔ آھانی یک سالیگیں بچّ “میرو”ءِ گوانزگ تھتءِ کشءَ ، “گوانزگ دار”ءَ درتکگ ات و ھمے بشانگءِ تھاات ۔
آ شپءَ ، وشگوات پہ ھانیءَ سوچوکیں تبدےءَ بدل بیتگ ات ؛ ماہ ماھگرءَ گپتگ ات ؛ آییءِ وش و ماھکانیں زند ، کُچّل و تھار بیتگ ات ۔ گریوگ آییءِ دلءَ ڈکّتگ ات ؛ چمّانی ارس ھشک بیتگ اتنت ؛ کاگدیں رکّ دوچگ بیتگ اتنت ؛ ھوش و سما شتگ و سَسّا چہ کارءَ کپتگ ات ۔ چیّا کہ آ شپ و ھمے پاسءَ ، چہ آھانی لوگءِ کمپانءِ دیوالءَ جُتک جنگءِ توارءَ ، وشوابیں مرد و جن چہ وابءَ جہ سرّینتگ اتنت و پدا اے ھکّلءَ : “مھراب ! دستاں وتی سرءِ بانءَ کن و زیت وتارا مئے دستءَ بدئے و اگاں نہ ، ھمے دمانءَ تیر گوارات کنیں “۔ اے پیما ، آییءِ زندءِ ھمراہ و مھرشانیں جود چرآییءَ گرگ بیتگ ات ۔
مھراب کہ وتی زندءِ بیست و ھشتمی سالءَ ات ، وتی میتگءِ وانندہ تریں مردات ۔ ماں گزدانءَ ، آ ھما ورنا ات کہ ایوکا آییءَ “زانتجاہ”ءَ علم دربرتگ ات ۔ میتگءِ درستیں مردمانی گوشئے چمانی روک ات ۔ چیّا کہ چہ آییءِ کوششاں گزدانءَ وانگجاھے پچ بیتگ ات ، ڈلریچیں سڑکےءِ کار بیگءَ ات و پہ نلءِ ورگی آپءَ ھم کوشش بیگءَ ات ۔ مھراب نہ ایوکا وتی میتگءِ پُلّیں بَچّ ات بلکیں ماں آ دمگءَ ، آییءِ مردمگری ، راجدوستی و پہ مردمانی کارانی گشاد کنگءَ ، وتی وسءَ پہ تچ و تاگ و رھشونیءَ نام کپتگ ات ۔ بلے اے دگہ دیما ، سیاہ پاگیں واکدارانی ھیالءَ ، آ ملک دشمن و ملک پروشیں واک و ھوربندانی ھمراہ ات و پمیشا مدام چو کنٹگےءَ ماں آھانی چمّاں جِکگءَات ۔
چہ دستگیریءَ دو ماہ و نیم رند ، مھراب ملک دشمنی ، دری واکانی پگارزیری و بے دینی ءِ جرمءَ تیرگوار کنگ بیت ۔ چہ آییءِ گرگءَ رند ، وھدیکہ آییءِ لوگ پٹگ بیت ، بلوچ و بلوچستان ، بلوچی زبان و ادبءِ باروءَ کتاب و سیاھگ و ھمے پیما دگہ لھتے راجی تاکبند و نبشتانک درکپتگ اتنت ۔ پمیشا ، چہ اشاں دگہ مستریں جرم و گناہ دگہ چے ببیت انت !
بچّوں تنگویں مرکب دار راجءِ زھم جن و ڈیہ ءِ یار
سردار چاکرءَ چو زیبدار لکّ بخشے بیت و ڈاٹار
لولی لول منی لالءَ را خیر خواہ و بلوچ سیالءَ را
بیت یک شاعرے در گپتار قومءَرا بدنت ھوش و سار
گوں طنز و شگان و تیھار چست بنت ساوڑی مثل ھار
لولی لول منی لالءَ را لکّ مرادیں شکر گال ءَ را “
( آزات جمالدینی )
| 2017-11-23T22:17:13
|
http://baluch.us/archives/7540
|
یمن کی صورتِ حال سے دور رہیں - Dunya Pakistan
یمن کی صورتِ حال سے دور رہیں
آج مشرقِ وسطیٰ انتشا ر اور کشمکش کا شکار ہو کر متحارب دھڑوں میں بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ خطہ خانہ جنگی کے چنگل سے آسانی سے نہیں نکل پائے گا۔ خطے میں رونما ہونے والے انقلابی واقعات، جنہیں بہارِ عرب سے تعبیر کیا گیا، سے بہت پہلے ہی اس خطے میں ریاستوں کی تشکیل ایک فالٹ لائن پر ہوتی دکھائی دی تھی۔ عرب قوم پرستی کی وہ کشش جس نے مختلف قبیلوں، مذہبی گروہوں اور فرقوں کو آپس میں باندھ کر رکھا ہوا تھا، میں جان باقی نہ رہی ۔ عوام کے لیے ریاستوں کی تشکیل ایک کھوکھلا وعدہ ثابت ہوئی کیونکہ ان ریاستوں پرسیاسی عمل جمود کا شکار ہوگیا اور نسل درنسل حکومت کرنے والے خاندانوں کی شخصی آمریت عوامی حکومت اور ریاست کی تشکیل کا خواب چکنا چور کردیا۔ اس سیاسی جمود کی وجہ سے عوام مایوس ہوتے گئے یہاں تک کہ یہ خطہ عالمی تبدیلیوں کی زد میں آگیا ۔ عراق، شام ، مصر، یمن اور بہت سی دیگر ریاستیں، جو دنیائے عرب میں نسبتاً فلاحی ریاستیں ہونے کا تاثر رکھتی تھیں، میں بھی حکمرانوں نے جبر و تشدد کے ذریعے کئی عشروں تک اپنے اقتدار کو طول دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ حکمرانی کا ڈھانچہ اس نہج پر ڈھالا گیا جس کا مقصد جبر ، نہ کہ عوامی حمایت، کے ذریعے اقتدار کو طول دینا تھا۔ چنانچہ جمہوریت، عوام کے حقوق اور عرب قوم پرستی کی جگہ یونیفارم میں موجود طاقتور آدمی کی مرضی نے لے لی۔ گھٹن کی اس فضا میں میڈیا اور سماجی تحریکوں کو عوام کی آواز بننے کی اجازت نہ تھی۔
سیاسی اور جمہوری اختلافات کا مقصد اختلافِ رائے کو تخلیقی جہت عطا کرتے ہوئے مذہبی اور لسانی اختلافات کو دبانا ہوتا ہے۔ تاہم ان عرب ریاستوں میں معمول کی جمہوری سرگرمیوں، سیاسی جماعتوں، آزادانہ انتخابات، سماجی گروہوں اور شخصی آزادی کی غیر موجودگی میں معاشرہ قبائل شناختوں، فرقہ واریت اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونے لگا۔ حکومت کے خلاف کی جانے والی مزاحمت میں بھی سیاسی اختلاف کی بجائے مذہبی اور قبائلی رنگ ابھرنے لگا۔ کسی بھی آمرانہ طرزِ حکومت میں یہ ایک فطری بات ہے کہ حکمران عوام سے دور رہتے ہیں۔ اُنہیں اپنے اور عوام کے درمیان محفوظ فاصلہ پیدا کرنے کے لیے جبر کا سہار ا لینا ہوتا ہے تاکہ وہ عوامی اختلاف اور بغاوت کا راستہ سختی سے روک سکیں۔ چنانچہ دیکھنے میں آیا کہ اسلامی ریاستوں کی آمرانہ حکومتیں دراصل فاشسٹ ہی تھیں کیونکہ وہ عوام اور اپوزیشن کو دبانے کے لیے وہی حربے استعمال کرتی تھیں جو فاشزم کا خاصہ ہیں۔ اس سخت اور بے لچک رویے کی وجہ سے مختلف اشکال میں مزاحمت سامنے آتی رہی یہاں تک کہ کچھ ریاستوں میں مسلح دستوں نے ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ دھشت گردی کی پیہم کارروائیوں کی وجہ سے ریاست کی علمداری کمزور پڑ گئی۔ ان میں مصر میں قدرے مختلف صورتِ حال دیکھنے میں آئی کیونکہ اس کی طاقتور فوج نے استحکام اور امن قائم کرنے کے لیے آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اُس وقت تک قومی اور علاقائی معروضات تبدیل ہونا شروع ہوگئے تھے۔
یمن میں کم و بیش ایک عشرے سے کشمکش جاری ہے۔ یہاں کھولاؤ میں اضافہ کرنے والے تمام عناصر، جیسا کہ قبائلی، مذہبی اور فروعی اختلافات رکھنے والے دھڑے موجود ہیں ۔ سب سے خطرناک پیش رفت یہ تھی کہ سول کشمکش میں علاقائی طاقتوں کا تصادم، جن میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان رقابت سب سے شدید ہے، بھی شامل ہوکر جلتی پر تیل گرانے لگا۔ ان دونوں ممالک کی مداخلت در مداخلت کی پالیسی نے ان کے ہم خیال گروہوں کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کردیا ہے۔ خطے کی موجودہ کشمکش میں سعودی عرب کی قیادت میں بننے والا آلائنس نسبتاً طاقتور ہے اور اسے امریکہ او ر مغربی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ خطے پر جارحانہ انداز میں اثر انداز ہوکر اپنے مرضی سے معاملات کو نمٹانا چاہتا ہے۔ تاہم اس دوران خطے میں کچھ اور خطرناک عوامل سراٹھارہے ہیں۔ ان میں سب سے تشویش ناک داعش ہے جس نے شام اور عراق میں اپنی جڑیں پھیلارکھی ہیں ، جبکہ اس کے ہم خیال بہت سے انتہا پسندگروہ دیگر ریاستوں میں بھی فعال ہیں۔ اس طرح یہ خطہ شدید قسم کی کشمکش کا شکار ہے۔ اس کشمکش کا ایندھن بننے کے لیے ہر گروہ اپنی صفوں کو مضبوط کرنے کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کررہا ہے۔ اس بھرتی کے عمل میں بہت سی تنظیمیں معاونین کا کردار ادا کررہی ہیں ، حالانکہ ان تنظیموں کو ان کے ممالک میں سرکاری سطح پردھشت گرد نہیں سمجھا جاتا، لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ایسی تنظیمیں نظریات کی آڑ میں برین واشنگ کرکے نوجوانوں کو اس کشمکش میں جھونک رہی ہیں۔ اپنی وسیع آبادی ، بے روزگاری اور تعلیمی سہولیات کے فقدان کے ساتھ پاکستان ایسی تنظیموں کے لیے ایک زرخیز زمین ہے۔یہ تنظیمیں مختلف ناموں سے عشروں سے یہاں نوجوانوں کو برین واشنگ کررہی ہیں۔
پاکستان کئی عشروں سے مشرقِ وسطیٰ میں بننے والے پاور بلاک کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے کیونکہ اس کے سکیورٹی اپریٹس کا دارومدار انہی مغربی ممالک پر ہے جو ایسے پاور بلاکس کے حامی ہیں۔ ہمارے بعض حکمرانوں کے عرب ریاستوں کے حکمرانوں کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ہماری افرادی قوت کی کھپت کی اہم ترین جگہ یہی ریاستیں ہیں۔ خطے سے شاہ ایران کی رخصتی کے بعد سے ایسی صورتِ حال پیدا ہوچکی ہے کہ پاکستان جیسے ایک ملک کے لیے دونوں مخالف ممالک، سعودی عرب اور ایران، کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنا بہت دشوار لگتا ہے۔ ہمارے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ایک حقیقت، لیکن آج کے معروضی حالات میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان مشرقیِ وسطیٰ میں ہونے والی کشمکش سے خود کو ہر ممکن حد تک دور رکھے۔ تاہم یہ آسان کام نہیں ہوگا ، خاص طور پر اُس وقت جب پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کے خلیجی ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہوں۔ خدشہ محسوس ہورہا ہے کہ یمن کے حوالے سے اہم فیصلے کرتے وقت قومی مفاد کی بجائے ان تعلقات اور جذباتی لگاؤ کو مدِ نظر رکھا جائے گا۔ اگر پاکستان کو سیاسی اور سفارتی معاملات میں کبھی غیر جانبدار ہونے کی ضرورت تھی تو شاید اس کا وقت آن پہنچا ہے۔
→ دنیائے اسلام کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟
بغداد کے مناظروں کے دور کی واپسی ←
لاہور کے درخت کیسے بچائیں
| 2019-06-27T07:05:11
|
https://dunyapakistan.com/20064/
|
بیکٹیریا اور مالیکیول کی آواز سننے والا حساس ترین الٹرا ساؤنڈ ایجاد - ۔آئی بی سی اردو
Posted By: ٹیم آئی بی سی اردو نیوزon: January 19, 2019 In: سائنس و ٹیکنالوجیViews: 189 views
| 2019-09-17T12:25:53
|
https://ibcurdu.com/news/82019
|
حکومت پنجاب نے محکمہ ہیلتھ کو پی ایف سی شیئر کی مد میں 4 ارب سے زائد کے فنڈزجاری کر دیئے
سرگودہا (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 مئی2018ء) حکومت پنجاب نے محکمہ ہیلتھ کو پی ایف سی شیئر کی مد میں 4 ارب سے زائد کے فنڈزجاری کر دیئے ہیں،سرگودھا ڈویژن کیلئے 37 کروڑ روپے سے زائد کے بھی فنڈز جاری ہوئے ہیں،ذرائع کے مطابق ،ذرائع کے مطابق وزارت خزانہ پنجاب نے محکمہ ہیلتھ پنجاب کو ماہ اپریل کے سیلری اور نان سیلری بجٹ کی مد میں 3 ارب 98 کروڑ93 لاکھ62ہزار روپے کے فنڈز جاری کر دیئے سرگودھا ڈویژن کے چاروں اضلاع خوشاب ،میانوالی ،بھکر اور سرگودھا کیلئے 37 کروڑ 61لاکھ روپے کے فنڈز جاری کر دیئے گئے ہیں ،ضلع سرگودھا کیلئے تنخواہوں کی مد میں 13 کروڑ 12لاکھ27 ہزار اور دوسرے اخراجات کیلئے 65 لاکھ61 ہزار ،ضلع خوشاب کیلئے تنخواہوں کی مد میں 6 کروڑ 70 لاکھ 4 ہزار دوسرے اخراجات کیلئے 30 لاکھ 35 ہزار ،ضلع میانوالی کیلئے تنخواہوں کی مد میں 6 کروڑ 85 لاکھ 32 ہزار دوسرے اخراجات کیلئے 34 لاکھ 27 ہزار روپے ،ضلع بھکرکیلئے تنخواہوں کی مد میں 7 کروڑ 97 لاکھ 28 ہزار اضافی اخراجات کیلئے 48 لاکھ 86 ہزار روپے کے فنڈز جاری کئے گئے ہیں،جس سے محکمہ ہیلتھ سرگودھا کی ماہ اپریل کی تنخواہوں کے علاوہ دیگر اضافی اخراجات کی مد میں دیئے گئے ہیں۔
ایف سیحکومت پنجابپنجاببجٹ
| 2018-09-23T14:06:42
|
https://www.urdupoint.com/daily/livenews/2018-05-04/news-1517006.html
|
ابن حجر مکى نے مودت اہل بیت کے وجوب سے متعلق روایات و احادیث نقل کرنے کے بعد کہا ہے: "مذکورہ احادیث سے اہل بیت کی محبت کا وجوب اور ان سے بغض کی شدید حرمت کا ثبوت فراہم ہوا۔ بیہقی اور بغوی اور دوسروں نے ان کی محبت کے واجب ہونے پر تصریح و تاکید کی ہے اور شافعی نے ـ ان سے منقولہ اشعار میں ـ اس پر تصریح کی ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں:[8]یا أهل بیت رسول اللّه حبّکم
| 2019-11-22T23:12:24
|
http://ur.mobile.wikishia.net/view/%D9%85%D9%88%D8%AF%D8%AA_%D8%A7%DB%81%D9%84_%D8%A8%DB%8C%D8%AA_%D8%B9%D9%84%DB%8C%DB%81%D9%85_%D8%A7%D9%84%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85
|
8 مارچ 2020 (00 : 01 AM)
انوشہ الطاف
لوگ جسے بچپن کہتے ہیں ہمارے لئے وہ احساس اور جذبات کا وہ سمندر تھا جہاں سوائے گہرائی کے اور کچھ بھی نہیں۔ آج بھی خیالوں میں ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے کسی ندی کے کنارے دوڈتے ، لہراتے بل کھاتے دور تک نکل جاتے ہیں خیالوں میں کبھی ہنستی اور کبھی روتی رہتی ہوں۔ من ہی من میں ان لمحوں کو یاد کرتے ہوئے عماو کا مسکراتا چہرہ دیکھتی اور وہ نہ بھولنے والا پل جب عماد میری چوٹی کھینچ کر مجھے تنگ کرتا۔ خیام برف کے گولے عماد پر پھینکتا اور ہم دونوں دور تک اُس کے پیچھے دوڑتے اور اُس کو پکڑ کر برف پر گھسیٹتے ہوئے ہنستے کھیلتے کب گھر پہنچ جاتے پتا ہی نہیں چلتاتھا۔
سب ہماری دوستی کی مثال دیتے اور اس پر رشک کرتے یہ ہمارے لئے دوستی نہیں روح کا رشتہ تھا۔ ہم دور سے ہی ایک دوسرے کے چہرے سے من کی باتیں پڑھ لیتے تھے۔ اگر دوستی یہی ہوتی ہے تو لاجواب ہوتی ہے؟ کھانا، اسکول جانا ،اسکول کا ہوم ورک، گھر کا کام، کھیل کود ان سب کے علاوہ لڑائی جھگڑے، ایک دوسرے کے کپڑے چھپانا، ہوم ورک کے پنے کاٹ دینا، برے برے پرینک کرنا یہ ہمارے روز کا معمول تھا۔
وقت اور زمانے کو کس کی خوشی نصیب ہوئی ہے۔ جو ہماری ہوتی۔ دکھا دیا اس نے کہ وقت اور زمانہ بس ان کا ہوتا ہے جو اسے خرید لیتے ہیں۔ ہمارے لئے تو بس پل کی خوشیاں اور عمر بھر کا غم تھا۔ کافی دنوں سے عماد کے چہرے پر مسکراہٹ غائب سی ہوگئی تھی۔ وہ گم سم رہتا۔ من ہی من میں سوچتا رہتا، آنکھیں اندر کی اور دھنستی سستی کا اعلان کرتی ہوئیں۔ پڑھائی میں بھی دل نہیں لگتا تھا اور نہ ٹھیک طرح سے کھا پی رہا تھا۔ مجھے اور خیام کو اب عماد کی کمی بری طرح کھٹکنے لگی تھی، شاید اس لئے کہ وہ اب اسکول بھی نہیں آتا تھا اور ہم سے دور دور رہنے لگا تھا۔ ہمیں اسکی فکر ہونے لگی تھی۔ میں نے اور خیّام نے اس سے کئی بار پوچھنے کی کوشش کی لیکن وہ ہر بار بات ڈال دیتا اور بنا کچھ کہے نکل جاتا۔ میں نے اور خیّام نے یہ طے کرلیا کہ عماد کی اس خاموشی کے پیچھے راز کیا ہے؟ اسکا پتا لگانا ہوگا کیوں وہ ہر وقت خاموش اور ڑرا ڈرا سا رہتا ہے؟ کیوں اسکول نہیں آتا؟ کیوں اب اس کی مسکراہٹ اُداسی میں تبدیل ہوگئی ؟ میں اور خیام ایک بار موقع ملتے ہی عمر کے پیچھے پیچھے چوری چھپے نکل گئے۔ عمر بستی سے دور ندی کے کنارے ایک چھوٹے سے میدان میں، جہاں بہت سارے لڑکے باتیں کررہے تھے، پہنچ گیا اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور کافی دیر تک باتیں کرتا رہا۔ اس کے بعد ایک لڑکے نے جیب سے بہت ساری چیزیں نکالیں اور عمر کے ہاتھ میں دیں پھر وہ ایک جگہ بیٹھ گئے اور یہ چیزیں کھولنے لگے۔ پتہ چلا وہ سب مل کے Drugs لے رہے تھے۔ عمر کو یہ سب کرتے دیکھ میری سانسیں رک گئیں۔ خیام کے چہرے کے سو رنگ بدلے۔ اُس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ عماد یہ سب کچھ کرنے لگے گا۔ یہ سب خیام کے جذبات سے باہر تھا اور معصومیت میں وہ یہ سب دیکھ کر بنا سوچے سمجھے عماد کے پاس گیا اور بنا کچھ کہے زور کا تھپڑ مارا اس کے زرد گال پر ایسا رسید کیا کہ گال رنگ کا ہوگیا۔ ہم غصے میں لال پیلے اُس کے گھر کی طرف جانے لگے لیکن میں نے خیام کو روک لیا، وہ شائد اس لئے کیونکہ ہم عماد کو خود سمجھاناچاہتے تھے۔ اس حادثے کے بعد بہت باہر عماد سے ملے لیکن اس نے ایک بار بھی وجہ نہیں بتائی کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔ ہم نے عمر کو کئی بار ان لڑکوں سے ملتے ہوئے دیکھا اور اسے ہر بار روکنے کی کوشش کی لیکن وہ تھا کہ ہماری بات مانتا ہی نہیں تھا اس طرح دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں گزرتے گئے۔ اس طرح ہماری دوستی کمزور ہونے لگی۔ میں اور خیام اب عماد کی ایک جھلک دیکھنے کو ترستے تھے۔ ایک دن خبر ملی کی عماد بہت بیمار ہے۔
ہم عماد سے ملنے اُس کے گھر گئے۔گھر میں اس کی ماں داڑھیں مار مار کو رو رہی تھی اور بس بار بار ایک ہی بات دوہرا رہی تھی کہ اس معصوم بچے نے کونسا گناہ کیا جو اسے اوپر والا اتنی بڑی سزا دے رہا ہے۔ میرے بچے کو اتنی بڑی بیماری کیسے لگ سکتی۔ میں اور خیام عماد کے کمرے میں گیے جہاں وہ بند آنکھوں سے اپنے جسم کی سانسوں سے لڑائی لڑ رہا تھا۔ اسے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ ہم نے اس سے بات کرنے کی کوشش تو اس نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے خیام کا ہاتھ پکڑ کر معافی مانگی اور کہا میں مجبور تھا۔ ہم نے پھر سے وجہ پوچھی تو پھر تھوڑا سا مسکرایا اور آنکھیں بند کرکے لمبی خاموشی اختیار کرلی۔ وہ خاموشی ہم دونوں کے لیے کسی خوفناک چیز سے کم نہیں تھی۔ وہ ہمارے دوست عمر کی آخری سانس تھی جو ہمارا انتظار کر رہی تھی، جس نے مجھے اور خیام کو ساری عمر کے لئے اکیلا اور خاموش کر دیا۔ ہماری آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو ہماری دوستی کی بنیاد کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہے تھے، ساتھ میں جارہا تھا ہمارا وہ دوست جو کبھی ہماری جان ہوا کرتا تھا۔ اب ہمارے محلے کی گلیاں اداس اداس لگ رہی تھیں۔ وہ برف کا موسم پھیکا پھیکا سا لگ رہا تھا۔نہ کوئی برف کے گولے کھانے والا رہا اور نہ مارنے والا اور نہ ہی کوئی میری چوٹی کھینچنے والا۔ تنہائی کی چادر میں آٹھوں پہر وقت کے دریچوں سے اپنے ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے مسکراتے خود کو سہلاتے زندگی کے پھینکے لمحوں کو گزارتے جا رہے تھے۔ زندگی بھی نہ جانے کہاں کیا کچھ دے جائے کسے پتہ بس ایک نیا مقصد دے گئی تھی۔ اسی مقصد کے لئے ہماری سانسیں چل رہی تھیں ورنہ کہاں دیتی ہیں یہ سانسیں ساتھ جب کوئی اپنا دور چلا جائے۔ ہم بس اتنا جاننا چاہتے تھے کہ عماد نے یہ راستہ کیوں چُنا۔ کیوں ہمیں وہ لمبی اداسیاں دے کر خود نکل گیا۔ میں اور خیّام اپنی اداسی اور ناامیدی کا سہارا لئے ہوئے عماد کے کمرے میں بہت دنوں کے بعد جارہے تھے۔ عماد کے ہاتھ سے بنائی ہوئی کمرے کی دیوار پر میری اور خیام کی تصویر، جس میں خیام اور عماد مل کے میری دونوں چوٹیاں کھینچ رہے ہیں،دیکھتے ہی چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ کا احساس ہوا۔ خیام نے عمر کے کپڑوں کی الماری کھولی اور اس کے کپڑوں میں سے ایک نوٹ بک ملی، جس پر عماد کے ہاتھ کی لکھاوٹ تھی۔ ہم نے اسے پڑھنا شروع کیا، لکھا تھا ”میرے پیارےبھائی خیام اور پیاری بہن زارہ! ........ تم جاننا چاہتے تھے نا میرے مرنے کی وجہ۔ میری دادی اور بہن کے ایکسیڈنٹ کے بعد میرے باپ نے کبھی میراcare نہیں کیا اور وہ ہر روز شراب پی کے آتے اور میری ماں اور مجھے مارتے ۔مجھ سے یہ بات برداشت نہیں ہوا اور اسی لئے میں نے یہ راستہ چنا۔ مجھے معاف کر دینا شاید میں بزدل تھا جو حالات کا سامنا نہ کر سکا.......
متعلمہ کلاس ہشتم
رابطہ؛ بونہ گام شوپیان، موبائل نمبر700631688
| 2020-03-28T20:47:25
|
http://www.kashmiruzma.net/NewsDetail?action=view&ID=62116
|
بدنظمی سے نظام کی طرف ۔۱ - فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ
بدنظمی سے نظام کی طرف ۔۱
Written by فتح اللہ گولن. Posted in تعمیرشخصیت.
صدیوں سے ہمارا معاشرہ اخلاقی،علمی اور فکری لحاظ سے تباہ ہوتا جا رہا ہے۔ ابھی تک معاشرے کو تربیت،فن اور اخلاق کے شعبوں میں متبادل نظام کی تلاش ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ ہمیں فولادی عزم اور ایسے دماغوں کی ضرورت ہے،جو نہ صرف وجود کی تمام گہرائیوں اور انسان کی تمام دنیوی و اخروی وسعتوں کا احاطہ کیے ہوئے ہوں،،بلکہ زمین پر خلافتِ الٰہیہ کی بنیاد پر ہر چیز پر اثرانداز ہوتے ہوں۔
حال ہی میں دنیا میں تبدیلی کی تحریکوں نے بہت سے چہروں کو بے نقاب کر کے ان کی حقیقت واضح کر دی اور ہماری آنکھوں سے کسی حد تک پردہ ہٹا دیا ہے،جس کے نتیجے میں ہم پر اشخاص اور اشیاء کی حقیقت بتدریج واضح ہونے لگی اور ہم صورت حال کو زیادہ واضح انداز میں دیکھنے اور واقعات سے زیادہ درست اور مضبوط نتائج اخذ کرنے لگے اور ہمیں یہ بات سمجھ میں آنے لگی کہ اس ملک میں دو صدیوں سے صرف شکل و صورت،فکر اور فلسفہ زندگی ہی معزولی، غفلت اورفراموشی کی نحوست کا شکار نہیں،بلکہ ہماری ملی ثقافت،تاریخی شعور،اخلاقی نظام،اقدار کا فہم، فنی تصور اور روحانی جڑیں بھی شاید پہلے سے زیادہ نقصان دہ انداز میں کھوکھلے پن کا نشانہ بنی ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے روحانی رشتے کمزور پڑ گئے،ہمارے اخلاقِ عالیہ کے سرچشمے سوکھ گئے اور ہمارے ماضی اور حال کے درمیان خلیج وسیع تر ہوگئی۔
عالم اسلام ایسے عجیب وغریب حالات میں سے گزرا،جن میں تعلیم یافتہ لوگوں پر خاموشی طاری ہوگئی،فکر کے منہ پر تالے پڑ گئے،اصحاب اقتدار و قوت نے گمراہی اور اصولوں سے فرار میں معاونت کی اور لاشوں کی طرح دکھائی دینے والی نسلیں حیرت کے عالم میں بجھے ہوئے تاریک اور مایوس کن احساسات سے متعارف ہوئیں۔
بیچارگی کے عالم میں ہر طرف سے مایوسی کے تاریک بادلوں میں گھری ہوئی آنکھوں نے کتنے آنسو بہائے ہوں گے اور دل کے احساسات نے شرم و حیا سے عاری لوگوں کے سامنے اپنی بات کا اظہار کرتے ہوئے گڑگڑا کر کہا ہو گا: ‘‘الحاد کی ہوا کے لیے اپنے بادبان کھولنے والے سرگرداں لوگوں،ہرشخص اور ہر چیز پر احمقانہ انداز میں تالیاں بجانے والوں،طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والے بے ضمیروں اور داغدار عزت و شرف والوں سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے؟’’جو چیز کانپ گئی وہ متزلزل ہوگئی،جو منہدم ہوگئی وہ برباد ہوگئی،جوچلی گئی بے نشان ہوگئی،لیکن اس کی جگہ کسی نئی چیز نے نہیں لی،جو چیز ٹوٹ گئی اسے مٹا دیا گیا،لیکن اس کے قائم مقام کوئی اور چیز نہیں آئی،جس کے نتیجے میں معاشرے کی اقدار مکمل طور پر الٹ ہو گئیں، خصوصاً دورِحاضر میں نہ صرف ہمارے بلکہ واقعیت پسند اور صرف اپنی روزمرہ کی ضروریات کی فکر کرنے والے سیکولر لوگوں کے دلوں میں بھی محسوس ہونے والا اضطراب اور غیرمحفوظ ہونے کا احساس اس کی واضح دلیل ہے۔
مجھے آپ سے امید ہے کہ آپ اس بارے میں سوچیں گے کہ ہم اخلاقی افلاس اور پے در پے آنے والی ان مشکلات سے جن کی وجہ سے زندگی ایک بوجھ اور ناقابل برداشت پریشانی کا باعث بن گئی ہے،کیسے نجات حاصل کرسکتے ہیں؟ہم اپنی انفرادی،خاندانی اور معاشرتی خرابیوں کو کیسے دور کرسکتے ہیں؟اور ہم اطمینان اور اعتماد کے ساتھ مستقبل کی طرف سفر کیسے جاری رکھ سکتے ہیں۔
کیاہم اِدھراُدھر سے خیالی اور وہمی افکار درآمد کرلیں؟یا اس معاصر ذہنیت سے کام لیں جس پر ہم ہر چیز کی عمارت استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟نہیں،نہیں کوہِ قاف سے بھی زیادہ بوجھل اس وزن کو ایسی منطق یا مجہول النسب افکار ہرگز نہیں اٹھا سکتے۔
سالہاسال سے احیائی تحریکیں صورت کی تبدیلی سے آگے نہیں بڑھیں اور خیالوں اور امیدوں کے مقاصد اور ان کی واضح اور قریب ترین اغراض کے ادراک سے قاصر رہیں۔ زمام اقتدار تھامنے والے یہ سمجھ بیٹھے کہ برش ہاتھ میں لے کر معاشرے اور ملت کے زخموں میں مختلف رنگ بھر دینا ہی علم و تجربہ کی معراج ہے،بلکہ شاید انقلاب ہے،لیکن معاشرے کے فعال اعضا اور روح کی رگوں سے بہنے والا خون ان کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل رہا۔یہ سب کچھ ہماری ماضی قریب میں پیش آچکا ہے،تاہم ایمان،امید اور عزم سے تقویت حاصل کرنے والے تحریکِ آزادی کے کچھ سرفروشوں کا کردار اس سے مستثنیٰ ہے،بلکہ مبارک اصولوں کی حامل اس تحریک میں پوشیدہ اور منتخب طاقت کو بے اثرکرنے کی ہماری کوششوں کے باوجود اس جیسی وحدت، بیداری اور توانائی دوبارہ حاصل نہ ہوئی۔
حاصل یہ کہ گزشتہ چند سالوں میں لوگوں کے جو گروہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوئے اور ان کے درمیان خلیج وسیع ہو گئی اگرچہ وہ فکری، روحانی اور جوہری لحاظ سے بالکل مفلس نہ بھی ہوئے ہوں ان کے درمیان اجنبیت بڑھی ہے اور وہ بھیڑیوں کی طرح ایک دوسرے پر جھپٹنے لگے ہیں۔بعض کے نزدیک جو چیز سفید ہے وہ دوسروں کے نزدیک سیاہ ہے۔بعض جس بات کی دعوت دیتے ہیں،دوسرے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔بعض کی طرف سے تجویز کردہ متبادل دوسروں کے نزدیک ہزیمت کا باعث ہے۔بعض کی صلابت دوسروں کی نظر میں تعصب ہے۔ان منفی پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے اس جنگ یا اندھوں کے جھگڑے کا ذرا تصور کیجئے،جس میں کوئی ایسا متفقہ معیار نہیں کہ جس کے ذریعے سے معلوم کیا جاسکے کہ کون حق کے قریب تر ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر آج ہمیں حقیقت اور مکارم اخلاق تک پہنچانے والے راستے، دھوکا نہ دینے والے طرز فکر اور گمراہ نہ کرنے والے معیاروں کی شدید ضرورت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ضمیر اوراخلاقی اقدار بہت سی مشکلات کو حل کر سکنے والے نور کے سرچشمے ہیں،لیکن دورحاضر میں ضمیر مجروح اور اخلاقی اقدار منتشر ہیں،لہٰذا یہ دو عوامل بھی جڑوں سے اکھڑ چکے ہیں اور ان کے سوتے خشک ہوچکے ہیں۔
اخلاق میں عرفان و وجدان کی وجہ سے بلندی نہیں آتی،
بلکہ انسان میں اعلیٰ اخلاق خوفِ خدا سے پیداہوتے ہیں۔
بالفرض اگر دلوں سے خوفِ خدا جاتا رہے
توآپ کو عرفان و وجدان کا نشان تک نہ ملے گا۔{qluetip title=[(۱)]}(۱) محمدعاکف،‘‘دیوان’’ ،ص:۲۷۱.{/qluetip}
جن خوفناک حالات میں ہم جی رہے ہیں ان کا اندازہ کرنے کے لیے اوپر ذکرکردہ صورتحال پر ارادے کی کمزوری،عقلی محاکمے کے کھوکھلے پن،انسانی جذبات کے وحشی پن اور ان کے اژدھے کی مانند خون کے پیاسے ہونے کا اضافہ کرلیجئے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کام کاآغاز اپنے بنیادی فیصلوں پر نظرثانی، منطقی اندازِ فکر کی تمیز،ارادے کی کماحقہ ادائیگی اور پرعزم نسلوں کی تیاری سے کریں۔ہمیں سب سے پہلے اسباب کی رعایت کا اعتراف کرنا چاہیے،کیونکہ ہم اسباب میں گھری ہوئی دنیامیں رہتے ہیں،چونکہ ہم عالم اسباب میں رہتے ہیں،اس لیے انہیں نظرانداز کرنا جبر اور گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔نہ صرف اسباب کی رعایت بلکہ علت و معلول کے درمیان مناسبت کا خیال رکھنا بھی مکلف ہونے کے اہم ترین لوازم میں سے ہے۔
اگر ہم نے ابھی سے سنجیدگی سے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ مضر افکار اور غلط رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی بنیادوں کا تعین نہ کیا تو ہمیں مستقبل میں اخلاقی بدحالی،معاشرتی خرابی اور دیگرانحرافات کی مختلف صورتیں نظر آئیں گی۔
تجربہ کار شخص اسے نہیں کہتے جو مصیبت اور بدحالی کے واضح نتائج دیکھنے کے بعدچوکنا ہوتا ہو،بلکہ تجربہ کار وہ شخص ہے جو وقت سے پہلے نہ صرف وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو بلکہ ان کے اسباب اور سیاق کو بھی بھانپ لیتا ہے۔یہ دعویٰ کرنا بہت مشکل ہے کہ ہم نے ماضی قریب میں اس قسم کی فراست کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہمارا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ ہم نے ارادے کا حق اداکر دیا ہے،بلکہ اس تاریک ترین دور میں رہنے والاانسان اپنے ذاتی ارادے،عزم اور فکر کے بارے میں ہی شکوک و شبہات کا شکار ہے اور ابھی تک اپنا نظام زندگی چلانے کے لیے حیرت انگیز اور بلند ارادوں کا متلاشی ہے۔اس سے بھی بڑی مصیبت اور تلخ صورتحال کسی مفکر،عالم یا ملک کے اشارے پر پاکیزہ جذبات اور ضمیر رکھنے والے لوگو ں کی کردارکشی اور حوصلے پست کرنا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اپنے طرز عمل اور طرز فکر میں فلان و علّان کو حَکَم بنانے لگے،جنہوں نے ہمیں سردرد،فیصلے اور مشاہدے کی کجی اور شخصیت کی لغزش میں مبتلا کیا،جس کے نتیجے میں مکمل طور پر فرمانبردار لوگ بھی ایسے خوفناک بگاڑ کا شکار ہوئے کہ جس کی اصلاح ناممکن دکھائی دیتی تھی۔اصول کاتقاضا تو یہ تھا کہ ہم خدائی ارادے کے سوا کسی بھی ایسے ارادے پر ایمان لاتے اور نہ اس پر راضی ہوتے، جس کے بارے میں ہم نے اچھی طرح چھان پھٹک اور تحقیق نہ کرلی ہو۔
ڈیکارٹ نے کہا تھا: ‘‘جب تک فکر آزاد نہ ہو اس وقت تک اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔’’ اپنی روحوں کو بوسیدہ اور اکثر پہلوؤں سے متعفن مدرسی (Scholastic) فکری نظاموں سے نجات دلانے کے لیے کیا ہمیں کم از کم ڈیکارٹ کی طرح نہیں سوچنا چاہیے۔
دنیوی و اخروی لحاظ سے منور آفاق کی حامل اور آنے والے سالوں میں یقینی طورپر ظہورپذیر ہونے والی صورتحال کی نشاندہی کرنے والی نسلوں کا فرض ہے کہ وہ باہر سے درآمد شدہ یا مقامی طور پر تیارکردہ نظاموں اور افکار پر نظرثانی کریں اور معاشرے کو اجنبیت کی غلاظت سے پاک کرکے اسے اس کے ذاتی حقائق کی جڑوں سے جوڑ دیں،تاکہ وہ اپنی حقیقت اور شخصیت کی حفاظت کرسکے،دنیا سے بھرپور طور پر رابطے میں رہتے ہوئے اپنے ذاتی خطوط پر مستقبل کی طرف بڑھتا رہے اور آگے بڑھتے ہوئے ماضی کو حال سے مربوط رکھے،نہ ماضی سے اس وجہ سے منہ موڑے کہ وہ قدیم ہے اور نہ ہر تروتازہ دکھائی دینے والی چیز کی طرف بغیر بصیرت کے صرف اس لیے متوجہ ہو کہ وہ نئی ہے۔اس نورانی نسل کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ حال اورمستقبل کا پورا علم رکھتی ہے۔وہ یہ جانتی ہے کہ جن امور کی ہمیں ضرورت ہے وہ صرف ہمارے علوم تک ہی محدود نہیں ہیں، نیز وہ حقیقت کو جاننے کے لیے اسے عقل و منطق کی چھلنی سے گزار کے الہام اور تجربات کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہے۔
اس قسم کی ترقی اور تبدیلی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی قریب اور اپنی تاریخ کے ہیروؤں سے بخوبی آگاہی حاصل کریں، چنانچہ ہمیں اپنی معا صر تاریخ پر اثر انداز ہونے والی شخصیات اور عوامل کے بارے میں علم ہونا چاہیے نیز ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے کن ہم وطنوں نے اس ملت کے سینے میں اتفاق و اتحاد کا نیا جذبہ بیدار کیا اور ملی جذبے کے ترانے گائے ۔ مجھے یقین ہے کہ اوپر ذکر کردہ امور کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہم اصولوں کی روشنی میں مستقبل کے لیے واضح لائحہ عمل تیا ر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اپنے سینوں میں فکری ترو تازگی ، عشق اور رواداری کے اخلاق محفوظ رکھنے والے بہادروں کے نقش قدم پر چلنے کی سعادت حاصل کریں گے۔<
Created on 18 نومبر 2011 .
| 2020-07-09T08:24:30
|
https://fgulen.com/ur/books-pk/the-statue-of-our-souls-ur/from-chaos-to-order-i
|
حضرت ام سلمہ بنت ابوامیہ رضی ﷲ عنہا (۱)
ََام المومنین حضرت ام سلمہ ہجرت نبوی سے ۲۸سال قبل،۵۹۶ء میں مکہ میں پیدا ہوئیں۔ بنومخزوم سے تعلق رکھتی تھیں جو بنوہاشم اور بنوامیہ کے بعدقریش کی تیسری اہم شاخ تھی۔ ہند ان کا اصل نام تھا ۔ان کے والد کا نام حذیفہ (یا سہیل: ابن سعد)بن مغیرہ تھا،تاہم اپنی کنیت ابوامیہ سے مشہور تھے۔ حذیفہ بہت دریادل تھے ،جب سفر پرنکلتے تو ان کے ہم سفروں کو توشۂ سفر لے جانے کی ضرورت نہ ہوتی ،ان کی خوراک اور دیگر ضروریات سفر حذیفہ کے ذمہ ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسافر کا توشہ دان (زادالراکب) ان کا لقب پڑ گیا۔ ساتویں پشت مرہ بن کعب پر حضرت ام سلمہ کا سلسلۂ نسب نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے شجرۂ مبارکہ سے جا ملتا ہے ۔ مرہ آپ کے بھی ساتویں جد تھے۔حضرت ام سلمہ کی والدہ عاتکہ بنت عامر بنوکنانہ کی شاخ بنوفراس سے تعلق رکھتی تھیں۔حضرت خالد بن ولید اور ابو جہل ام سلمہ کے چچا زاد تھے۔
حضرت ام سلمہ کی پہلی شادی بعثت نبوی کے بعدان کے چچا زاد ابو سلمہ عبداللّٰہ بن عبدالاسد سے ہوئی۔مغیرہ بن عبداللّٰہ دونوں کے دادا تھے۔ قبیلہ کے بانی مخزوم بن یقظہ ان کے پانچویں جد تھے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پھوپھی برہ بن عبدالمطلب حضرت ابوسلمہ کی والدہ تھیں۔ پھوپھی زاد ہونے کے علاوہ وہ آپ کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ابولہب کی باندی ثوبیہ نے پہلے حمزہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو، اس کے بعدحضرت ابوسلمہ کو دودھ پلایا۔ حضرت ابوسلمہ ،حضرت ابوعبیدہ بن جراح،حضرت عثمان بن عفان اورحضرت ارقم بن ابوارقم ایک ہی روز ایمان لائے۔ قبولیت اسلام میں حضرت ابوسلمہ کا گیارھواں نمبرتھا،لازماً حضرت ام سلمہ ان کے ساتھ ہی ایمان لائی ہوں گی۔
حضرت ابوسلمہ اور ام سلمہ حبشہ اور مدینہ کو ہجرت کرنے والے اولیں مسلمانوں میں سے تھے۔ان پر بنومخزوم کے تشدد کی تفصیل نہیں ملتی، لیکن لا محالہ اہل قبیلہ خصوصاً ابوجہل کی تعدی ہی ان کی ہجرت حبشہ کی وجہ بنی ہوگی۔ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ارشاد پر عمل کرتے ہوئے رجب ۵؍ نبوی میں بارہ مرداور چار عورتیں کچھ پیادہ، کچھ سوار شعیبہ کے ساحل سمندر پر پہنچے اور حبشہ جانے کے لیے نصف دینار کرایے پر کشتی حاصل کی ۔ان کے نام یہ ہیں: حضرت عثمان ،ان کی اہلیہحضرت رقیہ، حضرت ابوحذیفہ، ان کی بیوی حضرت سہلہ، حضرت زبیر، حضرت مصعب،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف،حضرت ابوسلمہ ،ان کی زوجہ حضرت ام سلمہ ،حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عامر بن ربیعہ،ان کی بیوی حضرت لیلیٰ، حضرت ابوسبرہ، حضرت حاطب بن عمرو، حضرت سُہیل بن بیضا اورحضرت عبداللّٰہ بن مسعود تھے۔کل سولہ خواتین نے حبشہ کو ہجرت کی۔حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں،جب ہم حبشہ کی سرزمین پر پہنچے تو شاہ نجاشی نے ہمیں بہت اچھی طرح رکھا۔ہم اپنے دین پر بڑے اطمینان سے عمل کرتے،اللّٰہ کی عبادت کرتے توکوئی ایذا پہنچاتا نہ کوئی نا پسندیدہ بات سننے کو ملتی (موسوعہ مسند احمد، رقم ۱۷۴۰، ۲۲۴۹۸)۔
جب مشرکین قریش کے ا یمان لانے اور مسلمانوں پر جاری ظلم و ستم بند ہونے کی افواہ حبشہ پہنچی تو وہاں پر مقیم صحابہ نے مکہ واپسی کا قصد کیا، حضرت ابوسلمہ بن عبدالاسد،حضرت ام سلمہ اور عثمان بن مظعون ان میں شامل تھے۔ مکہ پہنچ کر اس خبر کا غلط ہونا ثابت ہو گیا تو اکثر اہل ایمان حبشہ واپس چلے گئے، تاہم تینتیس افراد نے مکہ میں اپنے لیے جاے پناہ ڈھونڈ لی۔ حضرت عثمان نے اپنے چچا ولید بن مغیرہ کی پناہ قبول کی، جبکہ حضرت ابوسلمہ اپنے ماموں ابوطالب کی حفاظت میں آ گئے۔ ان کے قبیلے بنومخزوم کے سرکردہ افراد ابوطالب کے پاس آئے اور کہا: آپ نے اپنے بھتیجے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو ہم سے بچائے رکھا ،کیا اب ہمارے قبیلے کے فرد اور ہمارے بھتیجے حضرت ابوسلمہ کو بھی ہم سے بچائیں گے؟انھوں نے جواب دیا ، وہ میرا بھانجا ہے، میری پناہ میں آنا چاہتا تھا۔میں اس کی حفاظت ایسے ہی کروں گا، جیسے بھتیجے کی کی۔ یہ واحد موقع تھا جب ابولہب کے منہ سے کلمۂ خیر نکلا ، اٹھا اور بولا : تم اکثر اس بزرگ کو اپنی قوم کو پناہ دینے پر پوچھتے رہتے ہو۔بخدا! باز آ جاؤ ، ورنہ ہم اس کا ساتھ دینے کھڑے ہو جائیں گے تاکہ یہ اپنے ارادوں کی تکمیل کر لے ۔ اس پر بنومخزوم کے افراد واپس چلے گئے۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حج کے زمانہ میں مکہ آنے والے عرب زائرین کو اسلام کی دعوت دیتے ۔ رجب ۱۰؍نبوی میں خزرج کے چھ افراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔۱۱؍نبوی میں یثرب کے بارہ اور ۱۲؍نبوی میں بہتر لوگوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔نصرت اسلام کی ان بیعتوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا:اللّٰہ نے تمھارے بھائی بند بنا دیے ہیں اور ایسا شہر دے دیا ہے جہاں تم اطمینان سے رہ سکتے ہو۔ چنانچہ حضرت ابوسلمہ پہلے مہاجر تھے جو مدینہ پہنچے۔ حضرت ابوسلمہ کے بعدحضرت عامر بن ربیعہ، حضرت عبداللّٰہ بن جحش اور ان کے بھائی حضرت ابو احمد عبد دار الہجرت پہنچے۔پھر اکثر اہل ایمان نے ہجرت کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ حضرت ابوسلمہ ،حضرت عامر بن ربیعہ اور ابن جحش قبا میں حضرت مبشر بن عبدالمنذر کے ہاں مقیم ہوئے۔
حضرت ام سلمہ نے اپنی اورحضرت ابوسلمہ کی ہجرت مدینہ کی تفصیل اس طرح بیان کی ہے، حضرت ابوسلمہ مدینہ ہجرت کرنے نکلے ،اونٹ پر کجا وہ کسا ،مجھے اس میں بٹھایا اور بیٹے سلمہ کو میری گود میں دے دیا۔ اونٹ کی مہار پکڑ کر چند قدم چلے تھے کہ میرے چچاؤں نے دیکھ لیا۔ انھیں روک کر کہا:اپنے اوپر تو تم نے ہماری مر ضی نہیں چلنے دی۔یہ ہماری بیٹی ہے ،ہم تمھیں کیسے اجازت دیں کہ اسے ملکوں ملکوں ساتھ لیے پھرو؟پھر اونٹ کی نکیل حضرت ابوسلمہ کے ہاتھ سے چھینی اور مجھے نیچے اتار لیا۔ اس موقع پر حضرت ابوسلمہ کے چچا بھڑک اٹھے۔ لپک کر سلمہ کو پکڑ لیا اور بولے،تم نیحضرت ام سلمہ کو ہمارے بیٹے سے جدا کر دیا ہے، اب ہم اپنی اولاد کو اس کے پاس نہ رہنے دیں گے۔ اس طرح ہمارا کنبہ تین حصوں میں منقسم ہو گیا، حضرت ابوسلمہ نے سفر جاری رکھا اور مدینہ پہنچ گئے ،مجھے میرے دادا مغیرہ کے کنبے نے روک لیا اور سلمہ کو اس کے چچیرے بنو عبدالاسد لے کر چلتے بنے۔واللّٰہ!اسلام قبول کر نے کے بعد آل ابوسلمہ جیسی مصیبت کسی پر نہ پڑی۔ اب اگلے ایک سال کے لیے میرا یہ معمول بن گیا ،ہرروز سویرے سویرے مکہ کے ریگ زارمیں اس مقام پر جا بیٹھتی جہاں شوہر سے مفارقت ہوئی تھی اور شام تلک روتی رہتی۔آخرکارمیرے ایک چچازاد کا وہاں سے گزر ہوا ، میراغم اور میرا گریہ دیکھ کر اسے ترس آگیا۔ اس نے اہل قبیلہ سے کہا: اس بے چاری کی راہ کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟تم نے اسے شوہر اور بیٹے سے جدا کر رکھا ہے۔اب کسی نے اعتراض نہ کیا ،سب نے اتفاق کیا کہ اگر یہ خاوند کے پاس جانا چاہتی ہے توجانے دیا جائے۔ تب سسرال والوں نے میرا بیٹالوٹا دیا۔ میں نے اونٹ پکڑا ، بیٹے کو گود میں بٹھایااورخاوند کے پاس جانے کے لیے تن تنہا مدینہ روانہ ہوئی۔میرا خیال تھا، پوچھتے پوچھتے اپنے میاں کے پاس جا پہنچوں گی ۔مکہ سے چار میل باہر نکلی تھی کہ تنعیم کے مقام پر عثمان بن طلحہ عبدری ملے۔وہ ابھی ایمان نہ لائے تھے،مجھے دیکھ کر پوچھا: بنت ابوامیہ، کہاں جا رہی ہو؟کہا: یثرب، اپنے خاوند کے پاس، پوچھا: تمھارے ساتھ کون ہے؟بتایا،واللّٰہ!اللّٰہ اور اس بیٹے کے علاوہ میرے ساتھ کوئی نہیں۔ عثمان بولے: واللّٰہ! تمھیں تو اپنی منزل کا بھی پتا نہیں۔پھر اونٹ کی مہار پکڑ لی اور مجھے لے کر چل پڑے۔ واللّٰہ! میں نے ان سے زیادہ شریف عرب نہیں دیکھا۔جب پڑاؤ کرنا ہوتا ،اونٹ بٹھا کر کسی درخت کی اوٹ میں ہو جاتے اور وہیں آرام کرتے اورجب چلنے کا وقت آتا،کجاوہ باندھ کر اونٹ کو آگے کرتے ۔خود پیچھے ہٹ کر مجھے سوار ہونے کو کہتے۔میں سنبھل کر بیٹھ جاتی تو اونٹ کی نکیل ہاتھ میں تھام کرسفر شروع کر دیتے۔اسی طرح وہ مجھے حفاظت سے منزل بہ منزل لے کر چلتے رہے اور مدینہ پہنچا دیا ۔قبا میں بنوعمرو بن عوف کی بستی پرنظر پڑی تو کہا: تمھارا میاں یہاں مقیم ہے۔مجھے پہنچا کر خود مکہ لوٹ گئے۔نیک فطرت عثمان نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام قبول کیا۔
حضرت ام سلمہ کو مدینہ ہجرت کرنے والی پہلی عورت ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔کہا جاتا ہے کہ حضرت عامربن ربیعہ کی اہلیہ حضرت لیلیٰ بھی اول اول ہجرت کرنے والی خاتون تھیں۔مدینہ کی عورتیں یہ ماننے کے لیے تیا ر نہ تھیں کہ حضرت ام سلمہ ابوامیہ بن مغیرہ کی بیٹی ہیں ۔جب کچھ لوگ حج کرنے مکہ گئے تو حضرت ام سلمہ کے کنبے سے تصدیق کی(موسوعہ مسند احمد، رقم ۲۲۶۱۹)۔
۱ھ میں مسجد نبوی تعمیر ہوئی، رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خود مٹی ڈھوئی۔عمار بن یاسر کے ساتھیوں نے ان پر زیادہ اینٹیں لادی تھیں۔وہ پکارے: یا رسول اللّٰہ،انھوں نے مجھے مار ڈالا، اتنا بوجھ مجھ پر لاد دیا ہے جو خود اٹھا نہیں سکتے۔حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں :میں نے دیکھاکہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے گھنگھریالے بالوں کوجھاڑتے ہوئے فرمایا:بے چارے ابن سمیہ، یہ لوگ تجھے مارنہیں سکتے ،تجھے توایک باغی گروہ قتل کرے گا۔(مسلم، رقم۲۹۱۶)
۲ھ: جنگ بدر میں حضرت ام سلمہ کا بھائی مسعود بن ابو امیہ مشرکوں کی طرف سے لڑتا ہوا مارا گیا۔
۳ھ میں غزوۂ احد ہوا جس میں حضرت ام سلمہ کا دوسرا بھائی ہشام بن ابو امیہ کفار کی فوج میں شامل ہوا اور جہنم واصل ہوا۔ حضرت ام سلمہ کے چچا زاد حضرت شماس بن عثمان السابقون الاولون میں سے تھے۔ غزوۂ بدر کے غازی تھے، جنگ احد میں اپنے جسم کو ڈھال بناتے ہوئے چاروں اطراف سے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا دفاع کیا۔ شدید زخمی حالت میں انھیں مدینہ منتقل کیا گیا، سیدہ عائشہ نے ان کی تیمارداری کی تو حضرت ام سلمہ نے گلہ کیا کہ میرے چچیرے کی نگہداشت کوئی اور کرے؟ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: انھیں ام سلمہ کے پاس لے چلو۔ اگلے روز وہ و فات پا گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر انھیں میدان احد میں شہدا کے پاس دفن کیا گیا۔
حضرت ام سلمہ نے ایک بارحضرت ابوسلمہ سے کہا:مجھے معلوم ہوا ہے کہ اگر کسی عورت کا خاوند جنت جانے کا اہل ہو اوروہ عورت اس کی وفات کے بعد کسی سے شادی نہ کرے تو اللّٰہلازماً انھیں جنت میں اکٹھا کر دے گا۔یہی معاملہ ہو گا ، اگر عورت کی وفات کے بعد رنڈوا بیاہ نہ کرے ۔چلو ہم دونوں عہد کرتے ہیں کہ میں تمھارے بعد شادی نہ کروں گی اور تم میرے بعد بیاہ نہ کرنا۔حضرت ابوسلمہ نے الٹ سوال کر دیا: کیا تم میرا کہا مانو گی؟کیوں نہیں؟جواب ملا۔ میں مر گیا تو تم شادی کر لینا۔یہ کہنے کے بعدحضرت ابوسلمہ نے دعا کی:''اے اللّٰہ!میرے بعد ام سلمہ کو مجھ سے بہتر مرد د ینا جو اسے رسوا کرے نہ ایذا پہنچائے۔''حضرت ام سلمہ کہتی ہیں: میں سوچتی ہی رہی ،ایسا مرد کون ہو سکتا ہے؟
حضرت ابو سلمہ شہ سوار تھے ۔بدر میں داد شجاعت دینے کے بعدجنگ احد میں حصہ لیا ۔اس غزوہ میں ان کے بازو میں ابواسامہ (سلمہ :ابن سعد)جشمی کے تیر کی نوک سے گہرا زخم لگا جوایک ماہ کے علاج کے بعدبظاہر مندمل ہوگیا، لیکن اندرونی خرابی برقرار رہی۔ محرم۴ھ کے آخر یا اگلے مہینے صفر کے شروع میں نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ان کو پچپن صحابہ کے ایک دستے کی امارت سونپ کر قطن کی طرف بھیجا،جہاں طلیحہ اسدی نے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے فوج جمع کر رکھی تھی۔اس سریہ، سرےۂ ابوسلمہ سے واپسی کے سترہ دن بعد حضرت ابو سلمہ کا زخم پھر پھوٹ پڑا اور جان لیوا ثابت ہوا۔
۸جمادی الثانی ۴ ھ:حضرت ابوسلمہ کاآخری وقت آیا تورسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔وہ جان کنی کے عالم میں تھے، پردے کے دوسری طرف عورتیں رورہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: میت کی جان نکل رہی ہوتی ہے تو اس کی نگاہیں پرواز کرنے والی روح کا پیچھا کرتی ہیں، تم دیکھتے نہیں کہ آدمی مر جاتا ہے تو اس کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ جب حضرت ابوسلمہ کا دم نکل گیا تو آپ نے دست مبارک سے ان کی آنکھیں بند کر دیں۔آپ نے عورتوں کو تلقین کی: (میت پربین کرتے ہوئے) اپنے لیے بددعا نہیں، بلکہ بھلائی کی دعا ہی مانگو، کیونکہ فرشتے میت اور اس کے اہل خانہ کی دعا یا بددعا پر آمین کہتے ہیں۔ آپ نے حضرت ابوسلمہ کے لیے یوں دعا فرمائی: اے ﷲ، ابوسلمہ کی مغفرت کر دے۔ ہدایت یافتوں (اہل جنت) میں ان کا درجہ بلند کر دے ۔ پس ماندگان میں ان کا قائم مقام ہو جا۔ اے رب العالمین، ہماری اور ان کی مغفرت کردے۔ قبر میں ان کے لیے کشادگی کر دے اور اسے منور کردے (مسلم،رقم ۲۰۸۵، ۲۰۸۶۔ ابن ماجہ، رقم ۱۴۴۷)۔ ان کی بیوہ حضرت ام سلمہ نے آپ سے سوال کیا: یا رسول اللّٰہ،میں کیسے دعا کروں؟ فرمایا: کہو، ﷲ! ابوسلمہ کی مغفرت کر دے ، اور ہمیں ان کا بہتر بدل عنایت کر (ابو داؤد، رقم ۳۱۱۵، نسائی، رقم ۱۸۲۶، مسند احمد، رقم ۲۶۶۳۵)۔ حضرت ام سلمہ کہتی ہیں:میں نے سوچا، ابوسلمہ پردیسی تھے،پردیس میں فوت ہوئے۔ میں ان کے لیے ایسا گریہ کروں گی جس کا چرچا ہو اور جس کی مثال دی جایا کرے۔میرا ساتھ دینے کے لیے مدینہ کی وادئ صعید سے ایک عورت آئی۔مجھ سے پہلے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اس سے ملے اور فرمایا:کیا تو چاہتی ہے کہ شیطان کو اس گھر میں دوبارہ داخل کر دے جہاں سے اللّٰہ اسے نکال چکا ہے۔ آپ نے یہ ارشاد دو باردہرایا۔چنانچہ میں نے بین کرنے کا ارادہ ترک کر دیا (مسلم،رقم۲۰۸۹،مسند احمد،رقم ۲۶۴۷۲)۔ مسلم کے ایک شارح نے 'صعید'سے بالائی مدینہ، یعنی قبا مرادلیا ہے جو درست نہیں۔بالائی مصر کے لیے تو یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ،عوالئ مدینہ کے لیے نہیں۔ حضرت ام سلمہ کہتی ہیں:ابوسلمہ کی وفات کے بعد(ایام عدت میں) رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم میرے ہاں آئے۔میں نے آنکھوں پر ایلوا (مصبّر،aloe )لگا رکھا تھا۔فرمایا: یہ کیا ؟میں نے کہا: ایلوا ہے ،اس میں خوشبو نہیں ہوتی۔ آپ نے ارشاد فرمایا: یہ چہرے کو جوان دکھاتا ہے،رات کے وقت لگاؤ اور دن کو صاف کر دو۔ مزید فرمایا: (عدت کے دوران میں)خوشبو اور مہندی لگا کر کنگھی نہ کیا کرو،بیری کے پانی ہی سے اپنا سر ڈھانپ لیا کرو (ابوداؤد، رقم ۲۳۰۵، نسائی، رقم۳۵۶۷)۔
| 2017-06-29T01:58:47
|
http://www.al-mawrid.org/index.php/articles_urdu/view/hazrat-umm-e-salmah-bint-e-abu-umayya-razi-allah-anha-part-one
|
ڈینگی سے دہشت گردی تک
رحمت علی رازی
11 جنوری ، 2015
گزشتہ تین چار برسوں میں شہر کی فضائوں اور درسگاہوں کی ہوائوں میں جس لفظ کی بازگشت تواتر سے سنائی دی وہ مشہور زمانہ ’’ڈینگی مچھر‘‘ تھا جس نے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں بالخصوص افسران کے مزاج شاہی کو بھی اعصاب شکن اور تھکا دینے والے عذاب میں مبتلا کر دیا، خدا بھلا کرے خادم اعلیٰ کا جو جس کام کے پیچھے پڑتے ہیں، اسے پایۂ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ انہوں نے ’’ڈینگی مچھر‘‘ کے ساتھ ساتھ ان مہاکلاکار افسران کا بھی اس طرح کچومر نکالا کہ اکثر نے لاہور سے ہجرت کر کے اسلام آباد کی پرسکون فضائوں میں ہی ڈیرہ جمانے میں عافیت سمجھی اور بیشتر حضرات ابھی تک اس گوشہ ء عافیت میں ’’اچھے دنوں‘‘ کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اب خدا خدا کر کے انہیں خضرحیات گوندل کی صورت میں مثبت‘ محنتی اور غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل چیف سیکرٹری مل گئے ہیں، قوی اُمید ہے کہ وہ حکمرانوں کی طاقتور انڈر19 ٹیم جنہوں نے حکمرانوں کی نہ صرف ساکھ کو بے پناہ متاثر کیا بلکہ سینئر افسروں کیساتھ تضحیک آمیز سلوک بھی روا رکھا، کا ازالہ کرینگے اور معاملات درست سمت کی طرف لے جائیں گے۔ اب تو ہمارے برق رفتار خادم اعلیٰ کے ’’سیاسی خادمین خاص‘‘ بھی اپنی شاندار کارکردگی دکھانے کی خاطر سارا سارا دن ہاتھوں میں دُوربینیں پکڑے اور پمفلٹ تقسیم کرتے گلی
کوچوں‘ سڑکوں‘ کارخانوں ‘ قبرستانوں‘ محلوں کی چھتوں اور بالخصوص سرکاری اداروں کا طواف کرتے نظر آتے ہیں۔
ابھی ہم ’’ڈینگی مچھر‘‘ کے عذاب سے نکلے نہیں تھے کہ دہشت گردی نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور آج تعلیمی اداروں میں موت کا سا سناٹا ہے، نہ استاد نہ بچے، خالی درودیوار ہماری گڈگورننس کا منہ چڑا رہے ہیں کہ ہر حادثے کے بطن سے ہمیں ہمارا اصل چہرہ اور کارکردگی نظر آتی ہے۔ ہم ہمیشہ کام کرنے کیلئے حادثوں کے منتظر رہتے ہیں۔ ہر حادثے کے بعد جن وسائل کے نہ ہونے کا ہم رونا روتے ہیں، وہ وسائل بھی آ جاتے ہیں اور پھرتیوں سے وقتی طور پر مسائل کو حل کرنے کی تمام عملی تدابیر بھی بروئے کار لانے کے طریقے آ جاتے ہیں‘ پھر ’’چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے‘‘ وہی اللہ توکل چلتے تعلیمی ادارے جہاں درودیوار پر برستی یتیمی، نہ گارڈ، نہ چوکیدار، نہ پورے درودیوار، نہ پورا عملہ، نہ ترتیب، نہ اچھا فرنیچر، نہ وقت دینے والا استاد، نہ اچھی ٹیچر ٹریننگ، نہ صاف پانی، نہ طبی سہولیات، نہ کمپیوٹر لیب، نہ کمپیوٹر استاد، ٹوٹا فرنیچر، گندے کمرے، جہاں پرائیویٹ اداروں میں داخلوں سے محروم رہ جانے والے بچے کھچے بچے اور بھاری بھرکم فیسیں نہ دے سکنے والے طلبہ پناہ لینے آ جاتے ہیں اور پھر خالی ڈگریاں لیکر زمانے کے بے رحم ہاتھوں میں دھکے کھانے نکل پڑتے ہیں کہ گورنمنٹ اداروں کے بچے نہ بورڈ اور یونیورسٹی کے پوزیشن ہولڈر ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اتنے لائق فائق ہوتے ہیں کہ وہ پرائیویٹ اداروں سے نکلنے والی کھیپ کا مقابلہ کر سکیں۔
جس ملک میں دو سال میں چھ سیکرٹری ایجوکیشن بدل دئیے جائیں اور جہاں سیاست ایڈمنسٹریشن کی رگوں میں اپنی طاقت اور رعونت کا زہر گھول دے، وہاں تازہ دماغوں کی آبیاری ممکن نہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ہنگامی نوعیت کے حالات میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ افسران پورا پورا مہینہ چھٹی والے دن بھی صبح و شام کی تفریق کئے بغیر مسلسل کام اور کام کریں۔ اصول اور قاعدہ ہے کام کے وقت پر کام اور آرام کے وقت آرام ورنہ مسلسل کام کرنے سے مشینیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔ آرام کے بعد کام کرنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ ہڈحراموں اور نکموں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا، والے افسران بھی لمبی چھٹی کی درخواستیں لئے پھرتے ہیں اور اس جبری مشقت کے ہاتھوں بیزار نظر آتے ہیں اور میڈیا والے دورانِ میٹنگ خادم اعلیٰ کی ڈانٹ پھٹک سے بے خوف نیند کے جھونکے لیتے افسران کی تصاویر دکھا دکھا کر اپنی ریٹنگ بڑھاتے اور ’’بریکنگ نیوز‘‘ چلاتے نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے تو حالات یہ ہیں کہ یہاں تدریسی سرگرمیوں کے علاوہ ہر غیرتدریسی سرگرمی بڑی تندہی سے انجام دی جاتی ہے۔ اساتذہ اور طالب علم سارا سار ا دن مختلف آئٹم مثلاً ڈینگی، رشوت ستانی، کرپشن، صفائی، یوتھ فیسٹیول کے فوٹوسیشن کرتے اور کرواتے نظر آتے ہیں۔ خدا بھلا کرے، دورِ جدید کے اس کیمرے کا جس کے ذریعے خادم اعلیٰ کو براہِ راست تصاویر ارسال کر کے سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جاتی ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں تو ڈینگی ایک لطیفہ بن کر رہ گیا ہے۔ پہلے تو صرف ڈینگی سیمینار، لاروا پکڑنا، زیرو پیریڈ، پمفلٹ تقسیم کرنا، لوگوں کے گھروں اور چھتوں کی صفائی چیک کرنا ہی کم نہیں تھا، اب تو قومی میچوں کے موقع پر لڑکیوں اور لڑکوں کو بسیں بھر بھر کر جبری تالیاں بجانے کیلئے لے جانا بھی تعلیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ امتحانات کے دوران بھی بچوں کو جبری طور پر سارا سارا دن اور بعض اوقات رات کو بھی جبری مشقت کیلئے بھجوا کر علمی تشنگی مٹانے کا سامان فراہم کیا جاتا ہے۔ کبھی یوتھ فیسٹیول کے نام پر بچوں کی تعلیم کا بیڑا غرق کیا جاتا ہے، کبھی ہفتہ انسداد رشوت ستانی، کبھی لیپ ٹاپ کی تقسیم کے نام پر سیاسی دُکانداری چمکانے کیلئے بچوں کو جبری شمولیت کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ یہ سارے عظیم کام دو مہینے کے اس حصے میں ہوتے ہیں جب تعلیمی سرگرمیاں اپنی عروج پر ہوتی ہیں۔ جس ملک میں پورا تعلیمی سیشن ہی دو مہینے پر مشتمل ہو اور اسی دو مہینے میں یہ تمام اللے تللے بھی اپنے پورے جوبن پر ہوں اور انتظامیہ‘ اساتذہ اور تعلیمی اداروں کے رزلٹ کے اکیڈمک کیلنڈر کا زمینی حقائق سے دُور تک کا واسطہ نہ ہو اور جسے بورڈ اور یونیورسٹی کے شیڈول سے ہم آہنگ کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی گئی ہو، وہاں سو فیصد حاضری اور اچھے رزلٹ کے خواب دیکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ جس ملک میں لیبز پر پیسہ خرچ کرنے کی بجائے کھلونوں کی طرح چیٹنگ کرنے کیلئے نوجوان نسل کے ہاتھوں میں لیپ ٹاپ پکڑا دئیے جائیں اور ان کی لیبز کو اساتذہ سے محروم کر کے انہیں کمپیوٹر عیاشی کیلئے کھلی چھوٹ دیدی جائے، وہاں کے درودیوار اسی طرح سے آباد ہوتے ہیں جیسے اب ہیں۔ اس ملک میں وسائل کی کمی ہے نہ ہو سکتی ہے کہ یہ اللہ کے نام پر بنی ہوئی مملکت خداداد ہے اور یہ ملک اب تک اللہ کے سہارے ہی چل رہا ہے ورنہ اسے تباہ و برباد کرنے اور پتھر کے زمانے میں پہنچانے کیلئے حکام بالا نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
رحمت علی رازی سے مزید
بیوروکریسی کی کارکردگی اور مراعات کا ریکارڈ بھی تو عام کیا جائے
عدالت اس کا بھی سخت نوٹس لے
عدالت اس کا بھی سخت نوٹس لے!
وزیراعظم مستعفی ہو جائیں ؟
| 2018-11-18T12:46:55
|
https://jang.com.pk/news/18196
|
سائنسدانوں کے بنائے گئے روبوٹ نے صرف 4گھنٹے میں وہ کام کر نا سیکھ لیا جو انسان پوری زندگی لگا کر بھی نہیں سیکھ پاتا – Power Plus News
| 2019-12-10T10:22:11
|
https://powerplusnews.com/archives/921
|
آم کی پیداوار میں کمی، برآمدات بڑھنے کی امید | 72 نیوز
آم کی پیداوار میں کمی، برآمدات بڑھنے کی امید
کراچی: پاکستان سے رواں سیزن میں آم کی برآمدات کاآغاز 20مئی سے کیا جائے گا جبکہ ایکسپورٹ کا ہدف 1لاکھ ٹن مقرر کیا گیا ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ اور ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر وحید احمد کے مطابق پانی کی قلت اور موسمی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے آم کی پیداوار 35فیصد تک کم رہنے کا خدشہ ہے،اس مرتبہ پہلی بار اقتصادی راہداری کے ذریعے چین کو زمینی راستے سے بھی آم ایکسپورٹ کیا جائے گا۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن آم کی ایکسپورٹ کا 1 لاکھ ٹن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس سے 95سے 100ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ رمضان کے دوران آم کی آمد کی وجہ سے برآمدات کو بھی فائدہ ہوگا اور دنیا بھر میں پاکستانی آم روزے داروں کے دسترخوان کی زینت بنیں گے، رمضان کے ساتھ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے بھی برآمدی مالیت میں اضافہ ہوگا، پیداوار میں 50فیصد تک کمی کی وجہ سے گزشتہ سیزن کے لیے 1لاکھ ٹن کا ہدف پورا نہیں ہوسکا تھا اور برآمدات 81ہزار ٹن تک محدود رہی تھیں۔
ایف پی سی سی آئی کے نائب صدرنے کہا کہ رواں سیزن بھی خلیجی ممالک، متحدہ عرب امارات اور یورپی ممالک پاکستانی آم کے بڑے خریدار رہیں گے تاہم چین کے امپورٹرز کی جانب سے بھی پاکستانی آم کی امپورٹ میں گہری دلچسپی ظاہر کی جارہی ہے اور بڑی تعداد میں چین کو پاکستانی آم کی ایکسپورٹ انکوائریزموصول ہورہی ہیں۔
وحید احمد نے کہا کہ پاکستان سے پہلی مرتبہ اقتصادی راہداری کے ذریعے آم کی ایکسپورٹ کی جائے گی۔ چین کو 500سے 2000 ٹن تک آم برآمد کیے جانے کی توقع ہے جبکہ چین کی مارکیٹ پوری طرح ڈیولپ ہونے کی صورت میں چین پاکستان کی بڑی منڈی بن سکتا ہے جہاں سالانہ 20ہزار ٹن تک آم ایکسپورٹ کیا جاسکے گاجبکہ جاپان کو بھی 100سے 150ٹن آم برآمد کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اس سال چین، مالدیپ اور یورپی ملکوں میں پاکستانی آم کی تشہیری سرگرمیاں منعقد کی جائیں گی۔ ایران بھی پاکستان آم کا اہم خریدار ہے تاہم ایرانی کرنسی کی قدر میں غیرمعمولی کمی کی وجہ سے برآمد کنندگان کو اچھی قیمت ملنے کی توقع نہیں ہے، موسمی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ پاکستان میں آم کی پیداوار کے لیے بڑا خطرہ بن رہی ہے، گزشتہ سال بھی آم کی مجموعی پیداوار 50فیصد تک کم رہی تھی جبکہ رواں سیزن بھی 35فیصد تک کمی کا خدشہ ہے۔
وحید احمد نے بتایا کہ سندھ میں آم کی پیداوار کے علاقوں حیدرآباد ڈسٹرکٹ، ٹنڈوالہ یار، میرپور خاص میں آم کے باغات پانی کی قلت سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، پنجاب میں آم کی مجموعی پیداوار 35سے 40فیصد تک کم رہنے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں مظفر گڑھ، ملتان، رحیم یار خان اور شجاع آباد آم کے علاقوں میں بھی آم کی پیداوار 30سے 50فیصد تک کم رہنے کا خدشہ ہے، آم کی پیداوار میں کمی کے ساتھ آم کا سائز بھی چھوٹا رہا ہے، طلب کے مقابلے میں رسد بڑھنے سے اس سال آم کی تھوک قیمت بھی 2400سے بڑھ کر 3000روپے تک رہنے کا امکان ہے۔
وحید احمد نے کہا کہ مختلف پیداواری علاقوں میں سردیوں کا موسم دیر تک رہنے سے بھی آم کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، دوسری جانب ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے نئی نئی بیماریوں کے حملوں کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے آم کی پیداوار خدشات کا شکار ہے۔
آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن گزشتہ کئی سال سے کلائمٹ چینج کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ سرگرمیوں کے فروغ کا مطالبہ کرتی رہی ہے، زراعت کی بہتری کی ذمے داری اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو منتقل ہونے کی وجہ سے مربوط کوششوں کا فقدان ہے۔
وحید احمد نے کہا کہ آم کی ایکسپورٹ کا ہدف پورا کرنے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام، امن و امان کی صورتحال بہتر رہنے کے ساتھ ایئرلائنز، شپنگ کمپنیوں، کسٹمز، پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اور دیگر متعلقہ اداروں کا تعاون ضروری ہے۔ انہوں نے ایئرلائنز پر زور دیا کہ پاکستان کے توازن ادائیگی کے بحران کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے موزوں اور مناسب ایئرفریٹ مقرر کیا جائے تاکہ بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت کی وجہ سے دشوار ہوتی مسابقت کو آسان بنایا جاسکے۔
ٹیگزAbbotabad AbbTak ACER afghanistan America APPLE April Arfakareem ARY AryNews August Australia Autumn BadshahiMasjid balakot Balochistan Bangladesh BBC BOL BOLNews Brazil Canada channel24 Channel5 china City42 CM CNN DAWLANCE DawnNews December DELL Denmark dubai duniya eid Ericsson ExpressNews Fashion FAST FC Feb Fortress France Gawadar GC Generation GeoNews Germany GIKI GREE gujranwala Gulberg Haeir HAJ HARDEES HP Huwaie hyderabad india IndiaNews indonesia islamabad Italy JAAG JAAGNEWS JahangirTomb Jamatulawal Jamatusani Jan jatiumra Jeans July June kaghan Karachi Kashmir kasur KFC kpk Kuwait Lahore lahorenews larkana LG Liberty London LUMS MACbook Macdonalds Madina Makeups Makkah Malaysia mansehra March May MinarePakistan MITSHUBISHI MizareQuaid Muharram MULTAN muzaffarabad naran NATIONAL NDTV neelumvaleey NEO News Newzealand Nigeria northkorea November NWFP October ORIENT PakistanNews PakistanNewsChannel PakistanNewsChannels PAris PEL peshawar PTV Punjab qatar QMobile quetta Rabiulawal Rabiusani Rain raiwind Rajab Ramadan rawalpindi russia Safar SammaNews Samsung sargodha SaudiaArab September Shaban Shawal Shoes shugran sialkot Sindh SONY South Africa southkorea TV کراچی: پاکستان سے رواں سیزن میں آم کی برآمدات کاآغاز 20مئی سے کیا جائے گا جبکہ ایکسپورٹ کا ہدف 1لاکھ ٹن مقرر کیا گیا ہے۔
| 2018-08-19T15:00:14
|
http://72news.tv/?p=34056
|
صنعتی دہشت گردی - Life Tips
وہ مریضوں کےلئے پریشان تھے‘ وہ کہہ رہے تھے ہم نے ہسپتال باقاعدہ سٹارٹ نہیں کیا لیکن ہمارے پاس روزانہ پانچ چھ سو مریض آ جاتے ہیں‘ یہ بے چارے بسوں اور ٹریکٹروں پر آتے ہیں اور ہمارے گیٹ کے سامنے لیٹ جاتے ہیں‘ مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی“ میں نے ان سے پوچھا ”فیصل آباد میں سب سے زیادہ بیماری کون سی ہے“ ان کا کیا جواب تھا؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو اس مکالمے کی بیک گراﺅنڈ بتاتا چلوں۔ میں سیلانی ٹرسٹ کی دعوت پر فیصل آباد گیا‘ مولانا بشیر فاروقی کراچی
سے تشریف لائے تھے‘سیلانی ٹرسٹ خدمت کی حیران کن داستان ہے‘ مولانا بشیر فاروقی میمن کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں‘ کراچی میں باردانے کا کام کرتے تھے‘ اللہ تعالیٰ سے لو لگی اور یہ1999ءمیں کاروبار سے خدمت میں آ گئے‘ حضرت خود فرماتے ہیں ”میں نے پہلے دن ضرورت مندوں کو ساڑھے تین سو روپے کا کھانا کھلایا‘ آج ہم روزانہ 60 لاکھ روپے کا کھانا کھلا رہے ہیں‘ ہم کراچی میں روز 700 بکرے ذبح کرتے ہیں“ سیلانی پاکستان کا واحد ٹرسٹ ہے جو چندے کی درخواست نہیں کرتا لیکن لوگ انہیں اس کے باوجودروزانہ ایک کروڑ روپے دیتے ہیں ‘ یہ لوگ اس رقم سے درجنوں منصوبے چلا رہے ہیں‘ دستر خوانوں کی تعداد100 ہو چکی ہے‘ یہ وہاںایک لاکھ 25 ہزار لوگوں کو روزانہ کھانا کھلاتے ہیں‘ مولانا بشیر فاروقی نے چندے کی اپیل نہ کرنے کی ایک عجیب وجہ بیان کی‘ فرمایا ”میں نے خدمت کا کام شروع کیا تو میرے پاس روزانہ سینکڑوں غریب لوگ آتے تھے‘ میں نے ایک دن اللہ تعالیٰ سے دعا کی یا باری تعالیٰ میں ہاتھ نہیں پھیلا سکتا‘ آپ اگر غریب بھجواتے ہیں تو آپ مہربانی فرما کر امیر بھی بھیج دیا کریں تاکہ میں غرباءکی خدمت کر سکوں‘ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمالی اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے اللہ تعالیٰ غریبوں کے ساتھ امیر بھی بھجوا دیتا ہے ا ور ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق وسائل مل جاتے ہیں“ سیلانی ٹرسٹ کراچی کے علاوہ ملک کے 8 شہروںمیں کام کر رہا ہے‘ ان شہروں میں فیصل آباد بھی شامل ہے‘یہ لوگ نوجوانوں کو کمپیوٹر کی مفت تعلیم بھی دیتے ہیں‘ اتوار کوفیصل آباد سٹیڈیم میں ساڑھے تین ہزاربچوں کا ٹیسٹ تھا‘ یہ بچے سلیکشن کے بعد ”موبائل ایپلی کیشنز“ کی مفت ٹریننگ لیں گے اور یوں یہ چند ماہ میں اپنے قدموں پر
کھڑے ہو جائیں گے‘ سیلانی ٹرسٹ فیصل آباد میں صاف پانی کے پلانٹس بھی لگا رہا ہے‘ یہ لوگ 17 پلانٹس لگا چکے ہیں اور یہ مزید بھی لگانا چاہتے ہیں‘ میں ان لوگوں سے جب بھی ملتا ہوں‘ مجھے ان کا جذبہ حیران کر دیتا ہے‘یہ حقیقتاً وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے یہ ملک چل رہا ہے‘ میں فیصل آباد میں بھی اس تحیر کا شکار تھا‘ ہم اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔فیصل آباد میں ہمارے میزبان ہمیں ایک زیر تکمیل ہسپتال میں لے گئے‘ یہ ہسپتال ایمٹیکس گروپ نے بنایا‘ گروپ کے بانی حاجی محمد افتخار مرحوم تھے‘ یہ فیصل آباد کی سوترمنڈی میں بینک منیجر تھے‘ حاجی صاحب نے نوکری چھوڑی‘ کاروبار شروع کیا‘ اللہ تعالیٰ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور حاجی صاحب کا گروپ ٹاپ فائیو گروپس میں شامل ہو گیا‘ یہ ملک کے سب سے بڑے ایکسپورٹرز میں بھی آگئے لیکن پھر یہ گروپ بھی پاکستان کے دیگر گروپوں کی طرح زوال کا شکار ہوگیا‘دنیا کی 90 فیصد کمپنیاں غیرمعمولی ترقی (گروتھ) کی وجہ سے بند ہوتی ہیں‘ مالکان ترقی کی دوڑ میں اتنے آگے آ جاتے ہیں کہ یونٹس اور ملازمین پیچھے رہ جاتے ہیں‘ یہ لوگ اپنی پیداواری صلاحیت سے زیادہ آرڈر بھی لے لیتے ہیں اور یہ غلطی پورے گروپ کو لے کر بیٹھ جاتی ہے‘ ایمٹیکس کے ساتھ بھی یہی ہوا‘ گروپ میں بینکوں‘ تاجروں اور سوترمنڈی کے شیخوں کے اربوں روپے لگے ہوئے تھے‘ سرمائے کا یہ بوجھ پورے گروپ کو لے کر بیٹھ گیا یوں فیکٹریاں بند ہو گئیں‘جائیدادیں بک گئیں اور اثاثے منجمد ہو گئے‘ حاجی افتخار صاحب کے تین صاحبزادے ہیں‘ یہ تینوں گروپ کے ”ری وائیول“ کےلئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں‘ ان لوگوں نے جڑانوالہ روڈ پر اپنی پرانی فیکٹری میں ساڑھے پانچ سو بیڈ کا ہسپتال اور میڈیکل کالج بنا دیا ہے‘ حاجی صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے خرم افتخار کا خیال تھا اگر یہ ہسپتال اور یہ میڈیکل کالج چل گیا تو یہ ایک سال میں اپنے تمام خسارے پورے کر لیں گے‘ یہ اپنے تمام قرض بھی ادا کر دیں گے‘ میں ان کے اس دعوے سے اتفاق کرتا ہوں‘فیصل آباد میں اتنی بیماریاں ہیں کہ یہ ہسپتال چھ ماہ میں اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا‘ پوری دنیا میں تعلیم اور صحت بری سرمایہ کاری سمجھی جاتی ہے‘ دنیا کی تمام بڑی یونیورسٹیاں ارب پتی جاگیرداروں‘ صنعت کاروں اور تاجروں نے اپنی زمینیں اور فیکٹریاں بیچ کر بنائیں‘ دنیا میں پرائیویٹ ہسپتال بھی مشنری اور مخیر حضرات بناتے ہیں اور یہ ادارے اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کےلئے سو سو سال لگا دیتے ہیں لیکن آپ پاکستان میں کوئی تعلیمی ادارہ بنائیں‘ آپ کوئی کلینک یا کوئی ہسپتال کھول لیں‘آپ دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی ہو جائیں گے‘ پاکستان میں میڈیکل کالج سونے کی کان ہیں‘ آپ میڈیکل کالج بنائیں اور نوٹ گننے کےلئے مشینیں لگا لیں اور آپ اگر سمجھ دار ہیں تو آپ تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں اور میڈیکل کالجز کی چین بنائیں اور آخر میں ان کی حفاظت کےلئے ایک اخبار اور ایک ٹیلی ویژن چینل بنا لیں‘ آپ کو کوئی شخص ارب پتی ہونے سے نہیں روک سکے گا۔میں اب خرم افتخار کے ساتھ مکالمے کی طرف آتا ہوں‘میں نے ان سے پوچھا ”فیصل آباد میں کون سی بیماری سب سے زیادہ ہے“جواب دیا ”ہیپاٹائٹس سی‘ فیصل آباد کے لاکھوں لوگ اس موذی مرض میں مبتلا ہیں“ میں نے عرض کیا ”بیماری کی وجوہات کیا ہیں“ جواب دیا ”آلودہ گندہ پانی“ میں نے پوچھا ”اور پانی کس نے گندہ کیا“ وہ چپ ہو گئے‘ میں نے دوبارہ پوچھا تو وہ بولے ”فیصل آباد کے کارخانوں نے“ میں نے مسکرا کر عرض کیا ”سر پھر آپ بھی اس بحران کے ذمہ داروں میں شامل ہوتے ہیں“ وہ خاموش رہے‘ میں نے عرض کیا” فیصل آباد میں بارہ سو فیکٹریاں ہیں‘ یہ فیکٹریاں پچاس سال سے پانی کے ذخائر میں کیمیکل شامل کر رہی ہیںچنانچہ فیصل آباد کے لوگ ہیپاٹائٹس‘ ٹی بی‘ جلد اور کینسر کے مریض بن چکے ہیں‘ فیکٹری مالکان ظالم ہیں‘ یہ لوگ ڈالر کماتے وقت ایک لمحے کےلئے بھی یہ نہیں سوچتے ملک میں کتنے لوگ اندھے‘ بہرے اور گونگے ہورہے ہیں‘ ملک میں کینسر کے کتنے مریض اکٹھے ہو رہے ہیں‘ کتنے لوگ پھیپھڑوں‘ دل‘ گردوں اور جگر سے محروم ہو چکے ہیں اور کتنے لوگ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں“ وہ مسکرا کر بولے ”ہم نہیں‘ حکومت ذمہ دار ہے‘ یہ حکومت کا کام تھا“ میں نے عرض کیا ”آپ درست فرما رہے ہیں‘.تعلیم‘ تربیت‘ پانی اور ہسپتال حکومتوں کی ذمہ داریاں ہوتے ہیں لیکن دولت کی حرص نے ملک میں ہیپاٹائٹس سی کے اتنے مریض پیدا کر دیئے ہیں کہ ہماری حکومتیں اگر ان کے علاج میں جت جائیں تو ملک کا سارا ترقیاتی بجٹ خرچ ہو جائے گا لیکن مریض بحال نہیں ہو سکیں گے“ میں خرم صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر میں فیل ہوگیا‘ میں دل میں سوچتا رہا ہم لوگ کتنے ظالم ہیں‘ ہم لوگوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں‘ ہم تھوڑے سے منافع اور اس عارضی زندگی کی چند لگژریز کےلئے کتنی زندگیاں کھا گئے ہیںاور کتنی روزانہ کھا رہے ہیں‘ میں ایمٹیکس سے باہر نکلا تو مجھے ملتان کے ایک سیٹھ صاحب یاد آ گئے‘ وہ چمڑے کا کام کرتے تھے‘ ان کی ٹینری کی وجہ سے دو گاﺅں معذور ہو گئے‘ سیٹھ صاحب کے کاروبار کو زوال آیا تو انہوں نے علاقے میں ہسپتال بنا دیا‘ وہ پہلے نوٹ کمانے کےلئے لوگوں کو بیمار کرتے تھے اور وہ بعد ازاں لوگوں کا علاج کر کے نوٹ کماتے رہے لیکن پھر ان کا کیا انجام ہوا؟ وہ خود کینسر کے ہاتھوں مر گئے اور اولاد جائیداد کےلئے لڑ لڑ کرفنا گئی‘ ایک بیٹے نے دوسرے کو قتل کر دیا‘ایک مر گیا‘ دوسرا کچہریوں میں روز مرتا اور روز جیتا ہے‘ بیٹی کو طلاق ہو گئی‘ وہ گھر چلانے کےلئے اب سکول میں پڑھاتی ہے‘ پیچھے رہ گئی پراپرٹی تو وہ بینکوں نے ضبط کر لی ہے‘ سیٹھ صاحب کا ہسپتال بھی اب چندے سے چلتا ہے۔میری حکومت اور چیف جسٹس سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر ملک میں جاری صنعتی دہشت گردی پربھی توجہ دیں‘ آپ فیکٹریوں کو کم از کم اتنا پابند ضرور کر دیں یہ جب تک ویسٹ مینجمنٹ کا پلانٹ نہ لگا لیں‘ یہ جب تک فضائی آلودگی کے خاتمے کا بندوبست نہ کر لیں‘یہ جب تک پورے علاقے کےلئے صاف پانی کا انتظام نہ کر لیں اور یہ جب تک علاقے کےلئے فری ہسپتال نہ بنائیں اس وقت تک انہیں فیکٹریاں لگانے اور چلانے کی اجازت نہ ہو‘ یہ لوگ عوام کو صاف پانی‘ صاف ہوا اور جسمانی صفائی کی تربیت دینے کے بھی پابندہوں‘ یہ مزدوروں کو بھی ٹریننگ دیں اور یہ فیکٹری کے دائیں بائیں موجود لوگوں کو بھی اور میری صنعت کاروں سے بھی درخواست ہے آپ بھی خدا خوفی کریں‘ آپ اگر دنیا میں مریض چھوڑ کر جائیں گے تو یہ مریض حشر تک آپ کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے‘ان کی آہیں آپ کی قبروں کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گی چنانچہ آپ مہربانی کریں‘ آپ پیسے کی ہوس میں لوگوں کی زندگیوں سے نہ کھیلیں‘ آپ ویسٹ ڈسپوزل کا باقاعدہ بندوبست کریں ورنہ دوسروں کے ساتھ ساتھ آپ کے بچے بھی زندہ نہیں رہیں گے کیونکہ جب بیماری آتی ہے تو پھر یہ چھوٹے گھر دیکھتی ہے اور نہ ہی اونچے محل‘ یہ سب انسانوں کے ساتھ برابرسلوک کرتی ہے لہٰذا آپ خدا کےلئے خدا سے ڈریں۔
| 2020-06-01T03:05:12
|
http://lifetips.pk/archives/65101
|
بجلی کی چھٹیاں کب ختم ہوں گی؟ - ہم سب
بجلی کی چھٹیاں کب ختم ہوں گی؟
28-07-2016 میری نگاہ میں 85 Views
رحمان شاہ
h میں نے اتنا تو سنا تھا کہ گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں یا پھر کسی بھی موسم کی چھٹیاں مزدوروں، تمام تعلیمی اداروں کو ملتی ہیں اور تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو ملتی ہیں، لیکن مجھے اب ایسا لگ رہا کہ بجلی کو بھی گرمیوں کی چھٹیاں ملیں تھیں۔ بجلی کو چھٹیاں جولائی میں نہیں بلکہ مئی کی ابتداء میں ملیں تھیں۔ جیسے کہ ہمیں چھٹیاں ملتی ہیں تو ہم اپنی چھٹیوں کو شاندار بنانے کے لئے کسی تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ کچھ لوگ باہر کے ملکوں کا بھی رخ کرتے ہیں۔ یعنی ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ اس کی چھٹیاں شاندار طریقے سے گزریں۔ اسی طرح بجلی بھی اپنی چھٹیاں شاندار طریقے سے گزارنے کے لئے کہیں گئی ہوئی ہے، لیکن اس بات کا نہیں پتہ کہ کہاں گئی ہے۔
وطن کے لوگوں نہ کہاں کہاں بجلی کی سراغ نہیں لگایا، لیکن بجلی کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ ویسے میں بھی کبھی کبھی جب بجلی کی سراغ لگاتا ہوں اور اسے دنیا کے ہر خوبصورت مقامات پر نہیں دھونڈ پاتا تو سوچتا ہوں کہ شاید بجلی چھٹیاں گزارنے کے لئے چاند پر گئی ہے۔ اور اب تو یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ بجلی ضرور ایسی جگہ پر ہی ہوگی جہاں اسے کوئی غیر متوجہ نہ کر سکے۔ میں نے بجلی کی ایک انٹرویو میں سنا تھا کہ بجلی کو کوہ نوردی کا بھی بہت شوق ہے اور اور متعد بار بجلی نے شاہگوری اور نانگا پربت کو سر بھی کیا ہے۔ اس بار بجلی نے شمالی پہاڑوں کو سر کرنے کے بجائے چاند پر پہاڑوں کو سرکرنے کی خواہش دل میں بسا رکھی تھی، اس لئے وہ اپنی کوہ نوردی کی خواہش کو پوری کرنے کے لئے چاند پر گئی ہے۔ چاند پر پر گرمیوں کی چھٹیاں بڑے شاندار طریقے سے گزرتی ہیں۔ اور شاید وہاں پہاڑ بھی بڑے ظالم قسم کے ہوں گے۔ اور کوہ نورد کی خواہش ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ ظالم پہاڑوں کو سر کر کے اپنا نام سر فہرست لائے۔
ہمارے ملک میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے، جن کی یہ خواہش ہے کہ وہ بھی کوہ نوردی کے لئے چاند پر جائیں، لیکن اتنی شاندار اور یکتا جگہ پر جانا کوئی عام بات نہیں۔ اس کے لئے آپ کے بڑے لوگوں سے تعلقات ہونے چاہیے۔ بجلی کے تعلقات تو ماشااللہ بہت بڑے لوگوں کے ساتھ استوار ہیں اس لئے بجلی جہاں چاہے جا سکتی ہے۔ چاند پر بجلی کا جانا کوئی خاص بات نہیں ہے۔ بجلی اکثر چھٹیاں گزارنے کے لئے آوارگی کرتی رہتی ہے، لیکن بجلی نے اس بارکچھ زیادہ ہی چھٹیاں گزاریں۔ ہم بجلی کی راہوں کو تکتے رہے اور اس کا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی جب میں بجلی کا سراغ لگانے اس کے کسی عزیز کے ہاں گیا تو میں نے ان سے کہا۔
’’اسلام علیکم جناب!\”
’’و علیکم سلام ‘‘صاحب نے جواب دیا۔
’’ویسے جناب بجلی کا کچھ پتہ نہیں بہت دنوں سے۔۔ ‘‘میں نے صاحب کو اپنی طرف مخاطب کرتے ہوئے کہا
’’ہاں۔ سیر سپاٹے پر یا کوہ نوردی کے لئے گئی ہوگی‘‘
’’کہاں ؟‘‘میں نے کہا۔
’’مجھے کیا پتہ کہاں گئی ہے۔ ‘‘صاحب نے چہک کر کہا۔
’’آپ تو ان کے بڑے عزیز ہیں۔ آپ کو بھی نہیں بتایا اس کے کہ کہاں گئی ہے؟\”
’’بجلی کسی کو بھی نہیں بتاتی کہ وہ کب اور کہاں جاتی ہے۔ ‘‘ صاحب نے کہا۔
’’اچھا۔ ویسے کتنے دنوں کے لئے بجلی سیر سپاٹے پر یا کوہ نوردی کے لئے جاتی ہے۔ ؟؟‘‘میں نے حیران کن انداز میں کہا۔
’’کچھ پتہ نہیں؟‘‘
’’ویسے جناب میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ چاند پر گئی ہوگی ‘‘ میں نے صاحب کے کان میں سرگوشی کی۔
’’چاند پر۔‘‘صاحب نے حیرانی سے میری طرف دیکھا۔
’’ہاں چاند پر‘‘ میں نے یقین کے ساتھ سر کونیچے اوپر جنبش دی۔
’’شاید گئی ہو ویسے آپ کے لئے کچھ ٹھنڈا وغیرہ ‘‘
’’نہیں شکریہ‘‘یہ کہہ کر میں وہاں سے چلتا بنا۔
تو میرے عزیزوں جیسے کہ آپ کو پتہ لگا کہ بجلی کسی وقت بھی کسی سے بھی بن پوچھے جاتی ہے۔ بجلی کسی کو بھی نہیں بتاتی۔ .یہاں تک کہ اپنے عزیزوں کو بھی نہیں بتاتی کہ وہ کب اور کہاں جاتی ہے؟۔ چلو اگر بجلی سیر سپاٹے پر یا کوہ نوردی کے لئے گئی بھی ہے تو اس کی چھٹیاں کب ختم ہوں گی اس کا علم مجھے نہیں ہے۔ اگر میری مانی جائے تو بجلی کو اتنی چھٹیاں ہی نہیں دینی چاہیے۔ پتہ نہیں بجلی کو اتنی زیادہ چھٹیاں کون دیتاہے کہ پھر بجلی ایک دم غائب ہو جاتی ہے۔ اگر آپ میں کسی کے پاس اس کا علم ہے کہ بجلی کی چھٹیاں کب ختم ہوں گی تو براہ کرم مجھے آگاہ کر دیں۔
← اردو ادب کی \’\’ورجینا وولف\’\’ قرۃ العین حیدر
مہلک ترین گناہ اور سوشل میڈیا →
| 2017-12-15T02:55:48
|
http://www.humsub.com.pk/22188/rahman-shah/
|
شام کے شمال مشرقی علاقوں میں کرد باشندوں کا شامی فوجیوں کا شاندار استقبال
شیعت نیوز : شامی فوج صوبہ حلب کے شہر منبج اور صوبہ الحسکہ کے شہر تل تمر میں داخل ہو گئی ہے۔ جہاں ان شہروں کے باشندوں نے شامی فوجیوں کا شاندار استقبال کیا۔
شام کے شمالی صوبے ا لحسکہ کے شہر تل تمر اسی طرح الدریاسہ اور راس العین جبکہ حلب کے شہرمنبج میں شامی فوجیوں کی تعیناتی ترک فوج کی جارحیتوں کا مقابلہ کرنے کے مقصد انجام پائی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : کرد ملیشیا کی جوابی کارروائی، 10 ترک شہری جاں بحق اور 35 سے زائد زخمی
صوبہ الحسکہ کے شہر قامشلی میں کردوں کی تنطیم وائی پی جی کے قریبی ذریعوں نے خبردی ہے کہ اس علاقے کے کردوں کا شامی حکومت سے اتفاق ہوگیا ہے جس کی بنیاد پر وائی پی جی اور شامی فوج ان سبھی علاقوں کا مل کنٹرول سنبھالیں گی جو کردوں کے اختیار میں ہیں۔ اس درمیان اطلاعات ہیں کہ شامی فوج کا ایک دستہ الطبقہ شہر میں داخل ہونے کے بعد شہر کے فوجی ہوائی اڈے پر تعینات ہوگیا ہے۔
شام کے شمالی علاقوں سے ہی خبر ہے کہ ترکی کی فوجی جارحیت سے نمٹنے کے لئے شامی فوج کے مزید دستے شمالی علاقےکی طرف بڑھ رہے ہیں اور وہ حلب کے شہر منبج میں داخل ہوگئے ہیں۔
شامی کردوں نے بھی کہا ہے کہ ترکی سے ملحقہ شام کی سرحد پر شامی فوجیوں کی تعیناتی کے معاملے پر کردوں اور دمشق حکومت کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا ہے اس سمجھوتے کے مطابق شامی فوج شمالی شھر عفرین سمیت تمام سرحدی علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے گی۔
شامی فوج عفرین،عین العرب، عین عیسی، طبقہ اور منصورہ میں تعینات ہوگی۔
ادھر کردوں کے زیرکنٹرول علاقے کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ شامی کردوں نے ملک کی ارضی سالمیت اور سرحد کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے شام کی حکومت سے یہ سمجھوتہ کیا ہے۔
ترک فوج کی فضائیہ نے شام کے شمالی علاقے میں عام شہریوں اورغیر ملکی نامہ نگاروں پر کے ایک قافلے پر حملہ کردیا جس میں کم سے کم نوافراد مارے گئے ہیں۔
سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بھی اس حملے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ترک فوج کے حملے میں کم سے کم نو عام شہری اور غیر ملکی نامہ نگار ہلاک ہوئے ہیں۔
اس تنظیم کے مطابق ترک فوج کے اس ہوائی حملے میں مرنے والوں کی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے واضح رہے کہ ترکی کی فوج دہشت گردی سے نمٹنے اور ترکی اور شام کی سرحد سے کرد چھاپا ماروں کا صفایا کرنے کے بہانے شمالی شام پر بدھ کے روز سے حملے کر رہی ہے۔
Air Port damascus halab Kurds shiite news Syria Terrorist turkey ارضی ترکی جارحیت حکومت حلب حملے دمشق دہشت گردی سالمیت شام شیعت نیوز صوبہ فضائیہ قافلے کرد ہوائی اڈے
| 2020-08-04T19:57:33
|
https://urdu.shiitenews.org/sham-kay-shumali-mashiqi-ilakio-mai-kurd-bashindo/
|
بہاولنگر شہر میں دھماکے کی اطلاعات پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈ کی جانب سے دھماکے کی جگہ کی تلاش جاری ہے
بہاولنگر شہر میں دھماکے کی اطلاعات
پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈ کی جانب سے دھماکے کی جگہ کی تلاش جاری ہے
محمد علی پیر 14 مئی 2018 20:47
بہاولنگر(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار- 14مئی 2018ء ) :بہاولنگر شہر میں دھماکے کی اطلاعات ہیں۔۔پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈ کی جانب سے دھماکے کی جگہ کی تلاش جاری ہے۔تفصیلات کے مطابق بہاولنگر شہر میں زور دار دھماکے کی آوازسنی گئی ہے۔جس کے بعد پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈ کی جانب سے دھماکے کی جگہ کی تلاش جاری ہے۔
اس حوالے سے ابتدائی معلومات کے مطابق سیکیورٹی حکام کی جانب سے جائے وقوعہ کو تلاش کیا جارہا ہے تاکہ دھماکے کے حوالے بنیادی معلومات اکٹھی کی جا سکیں اور یہ پتہ چلایا جا سکے کی دھماکہ کس نوعیت کا تھا اور اس کے نتیجے میں کتنا نقصان ہوا یا ہونے کا خدشہ ہے۔جگہکا تعین ہوتے ہی امدادی کاروائیاں بھی شروع کر دی جائیں گی۔
| 2018-09-25T01:06:06
|
https://www.urdupoint.com/daily/livenews/2018-05-14/news-1530947.html
|
گفتن ذکرذکر خواصعدد ذکرذکرذاکرذکر عامذکر خاصذاکرینفواید ذکرذکر موفقیت
| 2019-03-20T09:01:23
|
http://moreinterop.in/post/category/3
|
مزدوروں کا فنڈسڑکوں کی تعمیر اورترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جارہا ہے،پاکستان ورکرز فیڈریشن | Jasarat News Urdu
مزدوروں کا فنڈسڑکوں کی تعمیر اورترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جارہا ہے،پاکستان ورکرز فیڈریشن
March 14, 2019, 7:52 PM
کراچی (اسٹا ف رپورٹر) حکومت انٹر نیشنل لیبر قوانین کے توثیق شدہ لیبر قوانین پر عمل درآمد کرے، تاکہ مزدوروں کی کم سے کم اجرت ،صحت و سلامتی سمیت دیگر مسائل میں کمی آسکے۔ دیگر مزدوروں کی طرح صحافی بھی قلم کامزدور ہیں ان کے مسائل بھی مشترکہ ہیں، پاکستان ورکرز فیڈریشن کا بنیادی کام مزدوروں کو لیبر قوانین سے متعلق آگاہی دینا ہے اور یقیناًایسے تربیتی پروگراموں سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے ہم مثبت نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں مزدور غیر رسمی شعبوں یعنی گھریلو ملازمت، تعمیرات اور زرعی شعبوں میں کام کر رہے ہیں جن کے حقوق کی تحفظ کیلئے نہ تو قانون سازی کی گئی اور نہ ہی اس سلسلے میں حکومت نے کوئی توجہ دی جس سے ان کے مسائل میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
ان خیالات کا اظہا رپاکستان ورکرز فیڈریشن کے مرکزی کوارڈینٹر شوکت علی انجم نے جمعرات کے روز مقامی ہوٹل میں ’’سماجی تحفظ اور اسکی موجودہ صورتحال‘‘ کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ علا قائی میڈیا ورکشاپ کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ورکشاپ سے پاکستان ورکرز فیڈریشن کہ پر وگرام �آفیسر وماسٹر ٹر ینر اسد محمود اور دیگر نے خطاب کیا ،
اس ورکشاپ میں جسارت لیبر صفحہ کے انچارج قاضی سراج،عنیبہ وقار،ضمیر عباس،منیر عقیل انصاری عدیلہ خان،شازیہ ارشد،ضیاء قریشی سمیت مختلف الیکڑونک اورپرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحا فیوں نے شرکت کی۔
پاکستان ورکرز فیڈریشن کے مرکزی کوارڈینٹر شوکت علی انجم نے مزید کہا کہ صوبائی لیبر قوانین پر نظرثانی اورغیر رسمی شعبوں کے مزدوروں کے حقوق کی تحفظ کیلئے پاکستان ورکرز فیڈریشن نے اپنی مہم کا آغاز کیا ہے تاکہ مزدوروں کو یکساں حقوق مل سکیں،ان کو کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ای او بی آئی کا فنڈسڑکوں کی تعمیر اورترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جارہا ہے جس سے مزدور متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستان ورکرز فیڈریشن کہ پر وگرام �آفیسر وماسٹر ٹر ینر اسد محمود نے میڈیا ورکشاپ میں موجودہ صنعتی تعلقات کے قوانین ، اٹھارویں ترمیم کے بعد لیبر قوانین کی موجودہ صورتحال، لیبر قوانین پر عملدرآمد ،سوشل سیکورٹی کے اداروں سمیت دیگر مزدوروں کے مسائل پر تفصیلی بریفنگ دی ،ان کا کہنا تھا کہ سماجی تحفظ کے اداروں میں سیا سی مداخلت کی وجہ سے فعال کام نہیں کر رہے ہیں اور بدعنوانی ،بد انتظامی کا شکار ہیں،
اٹھارہ ویں ترمیم کے بعد ای او بی آئی کو صوبوں کے حوالہ کیاگیا جس کی وجہ سے ادارں میں گو مگوں کی صورتحال ہیں، موجودہ دورے حکومت میں بھی اداروں میں یونین کی عدم مو جود گی کی وجہ سے بہت سارے مزدور دائرہ کا ر سے باہر ہیں اور آج بھی زیادہ تر مزدوراپنی پنشن اور دیگر مراعات سے محروم ہیں۔
| 2019-05-21T01:14:24
|
https://www.jasarat.com/2019/03/14/%D9%85%D8%B2%D8%AF%D9%88%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D9%81%D9%86%DA%88%D8%B3%DA%91%DA%A9%D9%88%DA%BA-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D9%85%DB%8C%D8%B1-%D8%A7%D9%88%D8%B1%D8%AA%D8%B1%D9%82%DB%8C%D8%A7/
|
سعود سے کبھی گھریلو جھگڑا نہیں ہوا ،پروکشن کے حوالے سے ضرور پروفیشنل اختلاف ہوتا ہے ‘ جویریہ
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 10 جون2018ء) اداکارہ جویریہ سعود نے کہا ہے کہ سعود اور میرے درمیان کبھی گھریلو جھگڑا نہیں ہوا البتہ پروکشن کے حوالے سے ضرور پروفیشنل اختلاف ہوتا ہے ۔
ایک انٹر ویو میں جویریہ سعود نے کہا کہ شادی سے پہلے کسی پراجیکٹ کے بارے میں اکیلے سوچ بچار کرتی تھی لیکن شادی کے بعد سعود اور میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔میاں بیوی گاڑی کو دو پہیے ہوتے ہیں اگر ان میں توازن ہو تو زندگی سکون سے گزرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب اولاد ہو جائے تو میاں بیوی کا رشتہ اور مضبوط ہو جاتا ہے کیونکہ دونوں کو اپنے بچوں کا مستقبل عزیز ہوتا ہے اورگھریلو لڑائی جھگڑے شدت اختیار نہیں کرتے ۔
شادیگاڑیبیوی
| 2018-09-22T20:32:40
|
https://www.urdupoint.com/daily/livenews/2018-06-10/news-1564650.html
|
مقبوضہ کشمیر میں مسلسل 2 ہفتوں سے جاری کرفیو نے زندگی اجیرن بنا دی – Savaira News
| 2019-09-16T16:30:34
|
http://www.savairanews.com/news/89249
|
سوال # 149490
(۱) ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی کتاب، کتاب البدعة میں انہوں نے دس سے زائد فقہائے احناف کے قول پیش کئے ہیں جو دین میں بدعت حسنہ کے قائل ہیں، کیا وہ سب فقہاء غلطی پر ہیں؟
(۲) کیا فقہاء امت میں اس بات پر اختلاف ہے کہ دین میں بدعت حسنہ ہے یا نہیں؟
(۳) اس حدیث کا مطلب ائمہ و محدثین نے کیا لکھا ہے جس نے دین اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کیا ہو اور اس کو اس کے عمل کا ثواب ملے گا یا نہیں؟
براہ کرم کسی امام کا حوالہ دیں۔ جزاک اللہ
جواب # 149490
Fatwa: 786-767/M=7/1438
(۱) ہم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب سے واقف نہیں اور ان کی کتاب ”کتاب البدعة“ بھی ہمارے پاس نہیں، کتاب سے زیر بحث صفحات کی فوٹو کاپی سوال کے ساتھ بھیجتے تو بہتر تھا، جو فقہاء احناف بدعت حسنہ کے قائل ہیں ان کو غلطی پر کس نے قرار دیا ہے؟ اور ان فقہاء نے بدعت حسنہ سے کیا مراد لیا ہے؟
(۲) بدعت حسنہ کا اعتبار ہے، اس میں اختلاف نہیں ہے، اختلاف اس کی تعریف وتطبیق میں ہے۔
(۳) مسلم شریف کی روایت ہے: من سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بہا بعدہ کتب لہ مثل أجر من عمل بہا ولا ینقص من أجورہم شيء ومن سن في الإسلام سنة سیئة فعمل بہا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بہا ولاینقص من أوزارہم شيء․ ترجمہ: جو آدمی اسلام میں کوئی اچھا کام ایجاد کرے پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا جائے تو جو لوگ بھی اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کی مثل اس کے لیے لکھا جائے گا اور خود ان عمل کرنے والوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا، اور جو کوئی اسلام میں کسی برے کام کی طرح ڈالے پھر اس کے بعد لوگ اس کو اپنے عمل میں لائیں تو ان سب کو جو گناہ ہوگا وہ اس کے نامہٴ اعمال میں لکھا جائے گا جب کہ عمل کرنے والوں کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی“ (مسلم شریف) بدعت کے معنی نئی چیز کے ہیں؛ لیکن حدیث سے معلوم ہوا کہ ہرنئی چیز ناجائز نہیں ہے، ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر قرون ثلاثہ میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو وہ بدعت حسنہ ہے اور جو نئی چیز ایسی ہو جس کی کوئی اصل یا نظیر نہ ہو، قواعد دین کے خلاف ہو، دین وشریعت کی مصلحتوں کے خلاف ہو وہ بدعت سیئہ ہے۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: والتحقیق أنہا إن کانت مما تندرج تحت مستحسن في الشرع فہي حسنة وإن کانت مما تندرج تحت مستقبح في الشرع فہي مستقبحة (فتح الباري)
| 2019-08-18T04:35:45
|
http://darulifta-deoband.com/home/ur/Innovations--Customs/149490
|
دوربین گلکسی اس ۹ پلاس - سایمان دیجیتال
خانه » دوربین گلکسی اس 9 پلاس
| 2018-11-17T22:06:37
|
https://saymandigital.com/tag/%D8%AF%D9%88%D8%B1%D8%A8%DB%8C%D9%86-%DA%AF%D9%84%DA%A9%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%D8%B3-9-%D9%BE%D9%84%D8%A7%D8%B3/
|
تبادلۂ خیال صارف:نثاراحمدناز - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
تبادلۂ خیال صارف:نثاراحمدناز
بزمِ اردو ویکیپیڈیا میں خوش آمدید نثاراحمدناز
← ویکیپیڈیا ایک آزاد بین اللسانی دائرۃ المعارف ہے جس میں ہم سب مل جل کر لکھتے ہیں اور مل جل کر اس کو سنوارتے ہیں۔ منصوبۂ ویکیپیڈیا کا آغاز جنوری 2001 میں ہوا، جبکہ اردو ویکیپیڈیا کا اجراء جنوری 2004 میں عمل میں آیا ۔ فی الحال اس ویکیپیڈیا میں اردو کے 148,591 مضامین موجود ہیں۔
محمد شعیب 12:53, 30 جولائی 2017 (م ع و)
اخذ کردہ از «https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=تبادلۂ_خیال_صارف:نثاراحمدناز&oldid=2624787»
اس صفحہ میں آخری بار مورخہ 30 جولائی 2017ء کو 12:53 بجے ترمیم کی گئی۔
| 2019-09-20T18:14:48
|
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%A8%D8%A7%D8%AF%D9%84%DB%82_%D8%AE%DB%8C%D8%A7%D9%84_%D8%B5%D8%A7%D8%B1%D9%81:%D9%86%D8%AB%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF%D9%86%D8%A7%D8%B2
|
لندن میں مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر کو گرفتار کرلیا گیا - Daily Qudrat
خدا کاجواب
اگر وائی فائی کے کمزور سگنلز سے پریشان ہوتے ہیں تو یہ طریقہ آزمائیں اور
سنی لیونی واحد بھارتی نہیں جنہوں نے فحش فلموں میں کام کیا بلکہ۔۔۔“ ایسی 10
ایک ایسا انوکھا ریسٹورینٹ جہاں ’شیر‘ آپ کا استقبال کرے گا، جانئے حیرت انگیز خبر
اس سنت نبوی ؐ پرعمل کریں سرکادردمنٹوں میں غائب ہوجائے گا
ریحام کی کتاب
مکہ کوریج
(23:45) جولائی 12, 2018
لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت ،عدالت
نوازشریف اور دیگر کی سزاﺅں کے خلاف اپیلیں
ایفی ڈرین کیس کا فیصلہ، حنیف عباسی کی
انتخابات 2018،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایسی
لندن میں مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر کو گرفتار کرلیا گیا
لندن(قدرت روزنامہ)لندن میں مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر کو گرفتار کرلیا گیا. لندن پولیس نے جنید صفدر کو ایک نوجوان کو مکا مارنے پر گرفتار کیا.
ضرور پڑھیں: اگر وائی فائی کے کمزور سگنلز سے پریشان ہوتے ہیں تو یہ طریقہ آزمائیں اور فل اسپیڈ انجوائے کریں ، پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی
شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی چھٹی!! ن لیگ سنبھالنے کا عہدہ جنید صفدر کے نام کر دیا گیا۔۔؟ایسی خبر آگئی ،جان کر پوری مسلم لیگ ن میں افراتفری مچ گئی
تفصیلات کے مطابق جب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف فیصلہ آیا ہے تب سے لندن میں موجود پاکستانی کمیونٹی کے اکثر افراد نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ میں دھرنا دے رکھا ہے. اس موقع پر کچھ نا خوشگوار واقعات بھی پیش آئے ہیں جس میں مظاہرین اور مسلم لیگ ن کے حامیوں میں جھگڑا ہوا ہے. ایسا ہی ایک واقعہ آج پیش آیا جس کے نتیجے میں مریم نواز
کے صاحبزادے جنید صفدر کو گرفتار کرلیا گیا ہے.ہوا کچھ یوں کہ لندن کیں مقیم نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز کے بچوں کا مظاہرین سے جھگڑا ہو گیا جس پر جنید صفدر نے طیش میں آ کے مظاہرین پر حملہ کردیا .مظاہرین میں سے ایک نوجوان کو مکا مارنے پر لندن پولیس نے جنید صفدر کو گرفتار کر لیا .انہیں ہتھکڑی لگا کر پولیس سینٹر منتقل کردیا گیا ہے جہاں ان کے خلاف مزید کاروائی کی جائے گی.
ضرور پڑھیں: سنی لیونی واحد بھارتی نہیں جنہوں نے فحش فلموں میں کام کیا بلکہ۔۔۔“ ایسی 10 بھارتی لڑکیاں منظرعام پر آ گئیں جنہوں نے بیرون ملک جا کر فحش فلموں میں اداکاری شروع کی، تفصیلات جان کر آپ کی حیرت کی انتہاءنہ رہے گی
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو بغیر لباس کے دیکھنے کے بارے میں پیارے نبی
(08:18) جولائی 21, 2018
’طیفا ان ٹربل‘ کی ہیروئن مایا علی کے بہت سے پاکستانی دیوانے ہیں لیکن اب
(08:11) جولائی 21, 2018
پاکستانیوں کیلئے اچانک بڑی خبر آگئی ، معروف ٹی وی سٹار نے امریکہ میں دوسری
(08:05) جولائی 21, 2018
روزانہ یہ جادوئی ڈرنک پی لیں اس قدر طاقت ور ہے کہ 1 ہفتے میں
(07:57) جولائی 21, 2018
جسم کے کس حصے کی پلاسٹک سرجری کروانے کا پچھتاوا ہے؟ فریال مخدوم نے سوال
(07:51) جولائی 21, 2018
پاکستانی اداکارہ زاراشیخ اب کس حال میں ہیں ؟دیکھ کرمداح حیران رہ گئے
(07:36) جولائی 21, 2018
رات کو لیٹے لیٹے تھک جاتے ہیں اور نیند نہیں آتی ؟ تو لیٹنے سے
(07:30) جولائی 21, 2018
روسی مفادات کیلئے خاتون خفیہ ایجنٹ نے امریکیوں کو اپنی سب سے قیمتی چیز پیش
(07:24) جولائی 21, 2018
8 سال کے بچے نے ریاضی کا ایک سوال کرکے پوری دنیا کو شش و
(07:16) جولائی 21, 2018
اگر رات کا کھانا 9 بجے سے پہلے کھالیں تو مرد اس بیماری سے بچ
خاتو ن سیاح سے اجتماعی جنسی زیادتی، نشہ آور اشیا کھلاکر ایسی شرمناک حرکت کہ
نوجوان کو لڑکی کے گھر والوں نے اغوا کرکے زبردستی شادی کروادی کیونکہ اس نے
میں پرس میں یہ کٹ رکھتی ہوں تاکہ کسی بھی وقت اپنے پیشاب کی یہ
| 2018-07-21T03:49:06
|
https://dailyqudrat.com.pk/world/12-Jul-2018/376461
|
شاعرہ فہمیدہ ریاض سے ملاقات ( بشکریہ: بی بی سی اردو منظرنامہ) | اردو محفل فورم
شاعرہ فہمیدہ ریاض سے ملاقات ( بشکریہ: بی بی سی اردو منظرنامہ)
نوید صادق نے 'تذکرہ جات' کی ذیل میں اس موضوع کا آغاز کیا، اگست 24, 2008
ملاقات: انور سِن رائے
سوال: فہمیدہ کیا آپ ہمیں بتائیں گی: فہمیدہ ریاض کون ہے؟
فہمیدہ ریاض: یہ تو آپ مشکل سوال کر رہے ہیں۔ میں فہمیدہ ریاض سے بلکل واقف نہیں اور میں ان کے بارے بہت کم سوچتی ہوں۔اس لیے میں انہیں نہیں جانتی زیادہ۔ (قہقہہ) میرٹھ میں کہتے ہیں کہ پیدا ہوئی تھی۔ نائنٹین فورٹی فائیو جولائی ٹوئنٹی ایٹ۔ (اٹھائیس جولائی انیس سو پینتالیس) یہ ہے ڈیٹ آف برتھ۔ والدین آزادی سے پہلے ہی آ گئے تھے، سندھ میں رہتے تھے۔ تو یہیں پر پڑھی تمام تعلیم یہیں پر حاصل کی۔ تمام تو کیا ایک حد تک۔ کالج میں یہاں پڑھی۔ یونیورسٹی میں یہاں تھی، پھر سکسٹی سیون میں میں انگلینڈ چلی گئی۔ وہاں کچھ عرصے بعد میں نے بی بی سی میں کام کیا تھا۔ وہاں میں رہی ہوں سیونٹی ٹو کے آخر تک۔ اس زمانے میں وہاں لندن سکول آف فلم ٹیکنیک ہوتا تھا، اس میں فلم ٹیکنیک کا کورس کیا تھا۔ اس وقت وہ بڑا پرسٹیجس ادارہ تھا۔ سیونٹی تھری میں میں پھر واپس آ گئی۔ میری بڑی بیٹی وہاں پیدا ہوئی سارہ۔ یہاں آنے کے بعد پاکستان کے حالات میں مصروف و مشغول ہوگئے۔ یہاں سے ایک رسالہ پبلش کرنا شروع کیا جس کا نام تھا: ’آواز‘۔ ضیاالحق کے زمانے میں، اس پر بڑے مقدمات وغیرہ قائم کیے گئے تھے۔ اس وقت بہت سے (لوگ) ملک چھوڑ کر جا رہے تھے میں بھی چلی گئی۔ ہندوستان رہی۔ مارچ ایٹی ون میں گئی تھی ایٹی سیون دسمبر میں واپس آئی۔ سات برس ہندوستان میں رہی۔ پہلے وہاں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ’پوئٹ ان ریذیڈنس‘ تھی۔ پھر سینئر ریسرچ فیلو رہی ’آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف سوشل ریسرچ‘ کی اور آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف ہسٹوریکل ریسرچ کی۔ اس کے بعد پاکستان میں تھی۔ پاکستان میں جب تبدیلی آئی تھی تو اسلام آباد میں تھی میں چئر پرسن نیشنل بک کونسل آف پاکستان۔ اس کے بعد منسٹری آف کلچر کی کنسلٹنٹ رہی کچھ عرصے۔ پھر نائنٹی سکس، نائنٹی سیون میں اپنی ایک این جی او رجسٹرڈ کروائی۔ ’وعدہ‘ اس کا نام تھا۔ ویمن اینڈ ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن۔ بنیادی طور پر تو میں یہ چاہتی تھی کہ یہ ایک پبلشنگ ہاؤس بنے جو بچوں اور عورتوں کے لیے کتابیں چھاپے۔ مگر ساتھ ساتھ پھر دوسری چیزیں بھی تھیں، کانفرنسیں کروانا۔ سیمینار منعقد کرنا۔ یعنی کتابیں بنانے کے سلسلے میں دوسری بھی بہت ساری سرگرمیاں تھیں، وہ جاری رہیں۔ وہ ادارہ ہے اپنی جگہ۔
نوید صادق, اگست 24, 2008
سوال: کب شروع کیا آپ نے لکھنا؟
ف ر: سمجھیے شروع کیا سکول کے زمانے سے۔ پہلی نظم تو تبھی لکھی تھی۔
س: یاد ہے پہلی نظم کیا تھی؟ کیسے اس کی تحریک ہوئی؟
ف ر: پہلی نظم کیوں ہوئی؟ کیسے ہوئی مجھے بالکل یاد ہے۔ حالانکہ وہ نظم اب مجھے نہیں یاد ہے۔ ایسا تھا کہ سندھ یونیورسٹی کی ڈیبیٹ تھی، اس میں لڑکے اور لڑکیں بھی لے جائے گئے تھے۔ یہ دکھانے کے لیے کہ انٹر کالجیٹ ڈیبیٹ کیسی ہوتی ہیں۔ تو بس وہاں پر ایک مجمع تھا لوگوں کا جو ہنس رہے تھے۔ اسی نے مجھ پر بڑا گہرا اثر چھوڑا۔ وہی میں نے پہلی نظم میں لکھا تھا۔ سب لوگوں کا اکٹھا مل کر ہنسنا۔ یہ اس کا موضوع تھا شاید۔
س: آپ کے بہن بھائی، والدین، دادا، دادی۔ کیا نام تھے کیسے رہتے تھے؟ کچھ ان کی یادیں؟
ف ر: انور، مجھے اپنے باپ اور ماں کا نام تو بے شک یاد ہے کافی مشکل ہوتا ہے بھولنا۔ میرے والد کا نام تھا ریاض الدین۔ جن کی وجہ سے میرا نام فہمیدہ ریاض ہے۔ میری والدہ کے دو نام تھے۔ ہمارے گھر میں سب کے دو نام رکھے جاتے تھے۔ان کا نام تھا حسنہ بیگم۔ جب میں پانچ سال کی تھی تو میرے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔میری والدہ نے ہم بہنوں کی پرورش کی۔ میرے والد جب یہاں آئے سندھ تو نور محمد ہائی سکول بنا تھا اس وقت۔ وہ تو تھرٹیز میں آ گئے تھے۔ تو وہ اس میں پڑھاتے تھے۔ اب مجھے ٹھیک سال تو یاد نہیں۔ اس وقت چھوٹے گیج کی ٹرین چلا کرتی تھی جسے اب یہ دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اجمیر سے ہوتی ہوئی یو پی تک چلی جاتی تھی۔ دہلی سے شاید بدلتے تھے اور پھر میرٹھ چلے جاتے تھے۔ مگر اس زمانے میں بھی یہ بہت ہی دور سمجھا جاتا تھا۔ باقاعدہ پردیس۔ تو وہ پڑھاتے تھے پہلے سکول میں پھر وارڈن تھے اور آخری زمانے میں اپنے انتقال سے کچھ عرصے پہلے وہ ٹریننگ کالج میں پڑھانے لگے تھے۔ انہوں نے بہت لمبا عرصہ گزارا تھا یہاں۔
سوال: پھر باقاعدہ شاعری کب سے شروع کی؟
ف ر: وہ تو کالج کے زمانے ہی میں۔ زبیدہ گورنمنٹ کالج حیدرآباد۔ سب کو نیشنلائیز کر لیا گیا تھا لیکن وہ تو شاید تھا ہی سرکاری کالج۔ بڑی اچھی جگہ تھا اور بڑا سا آسمان تھا اس پر۔ خاصا کھلا ہوا تھا اب تو نا جانے کیسا ہو گیا ہو؟ کالج کے زمانے میں نظمیں لکھنے لگی تھی۔ کبھی کبھی کسی کو سنا بھی دیں۔ کسی نے مجھ سے کہا کہ آپ بھیج دیں۔ اس زمانے میں ’فنون‘ شروع ہوا تھا یہ سکسٹی تھری کی بات ہے یا سکسٹی فور ہو گا۔ تو میں نے نظمیں بھیجیں اور وہ شائع ہو گئیں بس اس طرح آغاز ہوا۔
سوال: پہلی نظم کون سی شائع ہوئی؟
ف ر: یہ تو مجھے اب یاد نہیں ہے ’پتھر کی زباں‘ پہلے مجموعے کا نام تھا۔ سکسٹی سیون میں شائع ہوا۔ اس میں وہ نظم ہے۔ فنون میں وہ ایک نہیں تین چار نظمیں اکٹھی شائع ہوئی تھیں۔ اس کے بعد میں فنون میں ہی لکھتی رہی۔ اب تو کچھ عرصے سے میں نثر زیادہ لکھ رہی ہوں۔ سات آٹھ سال سے۔
سوال: بنیادی تشخص آپ کا شاعرہ کا ہے۔ اور اتنے عرصے سے شعر کہہ رہی ہیں آپ کو کیا لگتا ہے کیا بنیادی بات آپ نے کہنے کی کوشش کی؟
ف ر: دیکھیے کبھی کبھار تو آپ کچھ کہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن زیادہ تر تو آپ وہ لکھتے ہیں جو آپ کے دل پر گزر رہی ہوتی ہے۔ یا تو کوئی چیز جو آپ کو بہت اچھی لگے یا کسی چیز سے آپ کو بہت گہرا دکھ ہو۔ تو رسمی طریقے سے وہ ایک شعر بن جاتا ہے اور آپ اسے لکھ ڈالتے ہیں۔
سوال: کیسے آتی ہے نظم اور کیسے پھر وہ صفحے تک جاتی ہے؟
ف ر: یہ بڑا ہی مسٹیریس عمل ہے۔ بعض اوقات تو کوئی صورتِ حال ہے اور ایک لفظ آپ کے دماغ میں آتا ہے، اور بعض اوقات تو ایک لفظ کے گرد ایک نظم بن جاتی ہے۔ ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے کہ کچھ الفاظ ہوتے ہیں جو آتے ہیں آپ ان کے گرد بناتے ہیں سارا تانا بانا۔
سوال: کچھ نظمیں آپ کی سیاسی ہیں۔ کچھ واقعاتی بھی ہیں؟
ف ر: سیاست ایسا نہیں ہے کہ آپ کی ذاتی زندگی سے الگ کوئی چیز ہو۔ خود میری نسل جس دور میں پلی بڑھی، آپ ساٹھ کی دہائی لے لیجیے، تو وہ دور خود پاکستان میں ایک تبدیلی کا دور تھا۔ وہ ایوب خان کا دور تھا۔ ایوب خان کے خلاف ایک سٹوڈنٹ موومنٹ شروع ہوئی تھی۔ کراچی سے شروع ہوئی تھی اور اس وقت ہم سٹوڈنٹ تھے اور ہم بھی اس میں شامل تھے ایک نئی دنیا بنانے کا ولولہ سا تھا جو صرف پاکستان ہی میں نہیں تھا۔ ساری دنیا ہی میں تھا۔ لوگوں کی جدوجہد کا ایک دور۔ نظام تبدیل ہو رہے تھے، حکومتوں کے تختے الٹے جا رہے تھے۔ خصوصاً ان ملکوں میں پوسٹ کالونیل جنہیں آپ کہہ سکتے ہیں۔ چاہے وہ فرانس، چاہے جرمنی اور چاہے وہ انگلینڈ ہو انہوں نے اپنی کالونیز (نوآبادیات) چھوڑی تھیں اور ان کے معاشروں میں ایک اتھل پتھل تھی ایک ایسی تبدیلی کی خواہش جو آ رہی تھی اور آنا چاہتی تھی۔ نوآبادیاتی نظام سے نکلنے والی دنیا میں ایک نئے نظام کا خواب تھا۔ جو سماجی برابری کا اور انصاف کا اور وہ قابلِ حصول لگ رہا تھا اس وقت کیونکہ چند ایک ممالک تھے جن میں تبدیلیاں آئی تھیں اور یہ ایک بڑی انسپریشن تھی، تو ان حالات میں بہت سوچ سمجھ رکھنے والا پڑھا لکھا شخص کوئی نہ کوئی سٹینڈ لے رہا تھا۔ گو کہ اس وقت یہ تحریکیں اتنی مضبوط نہیں تھیں لیکن ان میں ایسے بھی تھے جو مذہبی تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارا مطمعِ نظر ہونا چاہیے۔ اس میں جو نمایاں فکری عنصر تھا وہ سوشلسٹ معاشرہ قائم کرنا چاہتا تھا۔ میں بھی اس میں شامل تھی یقیناً، اور صرف میں ہی کیوں، بلاشبہ میں نے سیاسی نظمیں لکھی ہیں، جیسے کہ میں تمہیں بتایا ہے کہ میری جو پہلی نظم تھی وہ بھی کوئی ایسی رومان پرور نہیں تھی۔ حالانکہ عشق بہت بڑا محرک ہوتا ہے شاعری کے لیے، آپ سے شعر کہلوانا شروع کر دیتا ہے عشق لیکن اس وقت ہمارے پس منظر میں آپ دیکھیں تو فیض صاحب تھے۔قاسمی صاحب کی شاعری تھی، مجاز کی بھی شاعری تھی۔ مجروح سلطان پوری کی شاعری تھی، ساحر لدھیانوی کی شاعری تھی۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں ہم نے لکھنا شروع کیا۔ تو اس میں گہری سیاسی وابستگی تھی اور اب بھی رہتی ہے۔
سوال: ایک تو یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی آپ کے ارد گرد ہو رہا ہوتا ہے چاہے وہ سیاسی ہو غیر سیاسی ہو، سماجی نوعیت کا ہو، ذاتی نوعیت کا ہو، اجتماعی ہو انفرادی ہو، آپ کو متاثر کرتا ہے لیکن کچھ ایسے سیاسی واقعات بھی ہوتے ہیں، آپ ایک ملک میں رہ رہے ہوتے ہیں اس میں جو کچھ ہوتا ہے وہ دنیا کے دوسرے واقعات سے زیادہ آپ کو متاثر کرتا ہے اور یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن جیسے آپ نے بھٹو صاحب کے دور میں بلوچستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بارے میں ایک نظم لکھی تھی، حلقے میں پڑھی تھی، تو ایسے واقعات آپ کے ہاں شعری شکل کیسے اختیار کرتے ہیں؟
ف ر: سیاسی واقعات میں ایسا ہوتا ہے کہ وہ آپ کو بہت گہرے طور پر متاثر کرتے ہیں۔ ایک بے چینی پیدا کرتے ہیں اور آپ ٹہلنے لگتے ہیں اور لکھنے لگتے ہیں جب تک پورا تصور بن کر سامنے نہ آ جائے اور پھر آپ اسے تھوڑا بہت سجا سنوار نہ لیں۔ یعنی یہ دوسرا مرحلہ کہ آپ اس کی تراش خراش کرتے ہیں۔ لیکن پہلا تو بہت ہی پُراسرار ہے اور سچ تو یہ ہے کہ شاعر اس کے بارے میں بہت کم جانتا ہے۔ اور ہر بار یہ ایک طرح سے ہوتا بھی نہیں ہے۔ ہر مرتبہ کوئی نئی ہی چیز ہوتی ہے لیکن یہ درست ہے کہ مجھے نظم لکھنے کےلیے کبھی اس طرح کی چیزوں کی ضرورت نہیں ہوئی۔ میں نے ایک دو نظمیں تو رکشہ میں بھی بیٹھ کر لکھی ہیں کیونکہ وہ اسی وقت خیال آ رہے تھے اور اسی وقت لکھیں۔ یہ میں نے محسوس کیا ہے کہ جو پہلا پہلا امپیکٹ ہوتا ہے آپ کے ذہن پر آپ کے دل پر وہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اسے اگر اسی وقت نہ لکھ نہ لیا جائے نہ تو بعد میں آپ اسے پکڑ نہیں پاتے۔ ایسے ہی ہے کوئی وقت ہوتا ہے، کوئی آن، کوئی پل جو آپ کےساتھ کچھ کر رہا ہے، کچھ الفاظ ہیں جو آپ کے ذہن میں آ رہے ہیں اور ایک طرح سے آ رہے ہیں۔ کچھ امیجز ہیں جو آ رہے ہیں، آپ اس وقت انہیں لکھ نہیں دیں گے تو پھر وہ بھاگ جائیں گے۔ آپ کے ہاتھ پھر نہیں آنے والے۔
سوال: ساری نظمیں آپ نے ایک نشست میں لکھیں؟
ف ر: میں نے اکثر نظمیں ایک نشست میں لکھیں، نہیں، پھر میں بعد میں ان پر کام بھی کرتی ہوں۔ تم جانتے ہو کہ میں پابند نظمیں لکھتی ہوں۔ آزاد نظمیں بھی ایک طرح کی پابند ہوتی ہیں۔ کیونکہ ہماری جو اردو میں روایت ہے جیسے فیض نے یا راشد نے لکھی ہیں تو ان میں ایک بحر ہوتی ہے لیکن وہ مختلف ٹکڑوں اور لائنوں میں آتی ہے یعنی جیسے آپ دیکھیں: یہ رات اس درد کا شجر ہے، فیض کی نظم ہے:
’یہ رات اس درد کا شجر ہے
تو آپ دیکھیں گے کہ: فعول فعلن فعول فعلن، پھر اگلی لائن بہت لمبی ہے:
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں میں لاکھ مشعل بکف ستاروں کے کارواں گھر کے کھو گئے ہیں‘
لیکن یہ سب کچھ ’فعول فعلن‘ ہی میں ہے۔ تو یہ بھی پابند ہوتی ہے تو میں اس طرح کی نظمیں لکھتی ہوں۔ تو اس میں جو نظم بنی اس کو بحر میں لانے کے لیے بعد میں اس پر کام کرتا ہے آدمی۔ تو اس میں نشست الفاظ کی ادھر اُدھر کر سکتا ہے ہے وہ اور بھی بہت کچھ کرتا ہے۔
سوال: یہ آپ ہر نظم کے ساتھ کرتی ہیں آپ یا کچھ نظمیں ایسی ہوتی ہیں جو ایسے آ جاتی ہیں کہ ان میں کچھ نہ کرنا پڑے؟
ف ر: بالکل ہر نظم کی ایڈٹنگ ضرور کرتی ہوں کیونکہ کوشش تو انسان کی ہوتی ہے نا، پھر یہ آپ کی ذمہ داری بھی ہے، اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے کہ آپ انہیں ایک سب سٹینڈرڈ یاناقص چیز نہ دیں۔ ان کی توقعات کو بہت زیادہ مجروح نہ کریں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بہت ساری ایڈٹنگ کے بعد آدمی کہتا ہے کہ پہلا والا مصرع ہی بہتر تھا۔ تو میرے لکھنے میں یہ ہے کہ میرا جو پہلا ڈرافٹ ہوتا ہے میں اس کی طرف کافی لوٹتی ہوں۔ بہت سی ترکیبوں کے بعد پہلے ڈرافٹ کو ہی ترجیح دیتی ہوں۔
سوال: آپ بہت عرصے تک لندن میں بھی رہی ہیں، تو کیا محسوس کرتی ہیں کہ وہاں رہنے کا آپ کی سوچ اور شاعری پر کیا اثر پڑا جو یہاں رہنے سے مختلف تھا؟
ف ر: میں نے وہاں بہت سے نظمیں لکھی تھیں ’بدن دریدہ‘ کی بہت سے نظمیں تو وہاں ہی لکھی تھیں۔ دیکھیے نا باسٹھ میں چلی گئی تھی باہتر کے آخر میں واپس آئی تہتر میں ’بدن دریدہ‘ شائع ہوئی تو اس کی زیادہ تر نظمیں وہیں لکھی گئی تھیں۔ تو یہ کہ ایک نیا ملک تھا اور ایسا نہیں ہوتا کہ آپ مغرب میں چلے گئے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم پاکستان کے ایک گھر سے اٹھ دوسرے گھر میں چلے گئے۔ ہمارا انٹریکشن بہت کم ہوتا ہے ویسٹ سے، میرا تو ہوا کیونکہ میں وہاں فلم سکول میں ایڈمیشن لیا تو وہاں ہندوستان کے لوگوں سے مجھے پہلی بار ملنے کا موقع ملا، اس سے پہلے میں ہندوستان نہیں گئی تھی بلکہ میرا پہلا امپریشن جو لندن ائرپورٹ پر تھا ہیتھرو پر، وہ یہ تھا کہ میں نے ایک سکھ کو دیکھا، جو میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ وہ حیرت انگیز تھا گوروں کو تو میں بھول گئی تھی میں تو اس سکھ کو دیکھ رہی تھی۔کیونکہ اردو ادب کی وجہ سے ان لوگوں کے بارہ میں پڑھا تو بہت کچھ تھا، آپ کو پتہ ہے ہمارے، مہندر سنگھ اور راجندر سنگھ بیدی اور بلونت سنگھ جن کے بغیر تو اردو ادب کچھ بھی نہیں، تو ہندو اور سکھ معاشرے کے بارے میں پڑھ تو رکھا تھا لیکن اسے دیکھنے کا فرسٹ ہینڈ ایکسپیرئنس نہیں تھا۔ پھر دوسرے ملکوں کے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا۔ عرب لوگوں سے، ایرانیوں سے، مصریوں سے، لندن سکول آف فلم ٹیکنیک ایک بہت ہی کاسمو پولیٹن جگہ تھی، ایک تو کامن ویلتھ ممالک سے آتے تھے اور یورپ سے بھی آتے تھے، لاطینی امریکہ سے آتے تھے۔ یہ ایک بہت ہی اچھا ایکسپوژر تھا پھر میں نے بی بی سی میں کام کیا۔ اس کے علاوہ ذاتی اور میرڈ زندگی کا آغاز لندن سے ہوا تھا۔ لندن میں میری پہلی بیٹی ہوئی تو ایک طرح یہ بہت بھرپور تجربہ تھا جو مجھے حاصل ہوا۔ لیکن چھ سات برس میں آدمی کوئی ایسا تبدیل نہیں ہو جاتا ہے اور میں نے کبھی بھی لندن میں ہمیشہ رہنے یا سیٹل ہونے کا خیال نہیں کیا تھا۔ ہمیشہ میں واپس ہی آنا چاہتی تھی۔ ہم اپنے ملک کو مختلف بنانا چاہتے تھے۔ لہٰذا یہاں پہ آنے کا فیصلہ ایک بہت ہی شعوری اور عزم کے ساتھ کیا ہوا فیصلہ تھا۔
سوال: جو کچھ یہاں آ کر ہوا اس سے آپ کو خوشی ہوئی، مایوسی ہوئی، اطمینان ہوا؟
ف ر: دیکھو، انور! انسان کی ذات بہت عجیب ہے۔وہ اگر اپنی مرضی سے تکلیفوں سے گذرتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔ یہاں آنے کے بعد میرے ذہن سے قریب جو تحریکیں اور جدوجہد تھی میں ان میں شامل رہی اور وہ زندگی کا ایک بہت ہی ثمردار حصہ ہے۔ مشکلیں تو پڑتی ہیں لیکن بہت سی چیزوں کو آپ فار گو کرتے ہیں اور یہ آپ کی اپنی چوائس ہے یعنی ایک خاص طرح کی زندگی جو ہو سکتی تھی اس کے بارے میں آپ نے کہا کہ نہیں یہ نہیں ہے آپ کا راستہ۔
سوال: انگلینڈ جانا اور پھر یہاں سے ہندوستان جانا ان دونوں کو آپ کن لفظوں میں بیان کریں گی؟
ف ر: ہندوستان تو ایک مجبوری تھی۔ میں مارچ اکیاسی میں گئی ہوں اس وقت ضیاالحق کا مارشل لا بہت ہی سخت تھا۔ اس حد تک کہ انہوں نے یہاں گلیوں تک میں ٹینک لا کر کھڑے کیے ہوئے تھے، لوگوں کو سرِ عام کوڑے مارے جا رہے تھے، جسے دیکھو اٹھا کر جیل میں ٹھونس دیا۔ مجھ پر مقدمات، اس لیے کہ میں ایک رسالہ ’آواز‘ شائع کرتی تھی، تو پبلشر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے چودہ مقدمات تھے بلکہ ان میں سے ایک تو ہم جیت بھی گئے تھے۔ فخرالدین جی ابراہیم تھے اس وقت جج، ایک مقدمہ ان میں سے ون ٹوئنٹی فور اے کے تحت تھا ایک سڈیشن کے تحت مقدمہ تھا۔ جس کی سزا پھانسی یا عمر قید بھی ہو سکتی تھی۔ میں ضمانت پر رہا تھی۔ بچے چھوٹے چھوٹے تھے، جیل جانے کا نہ مجھے پہلے شوق تھا نہ اب ہے۔ مثلاً بہت لوگ کہتے ہیں آپ جیل کیوں نہیں چلی گئیں ’بھئی مجھے نہیں اچھا لگتا ہے بند جگہ پر رہنا، میں کھلی جگہ پر رہنا پسند کرتی ہوں‘۔ یہی وجوہ تھیں جن کی وجہ سے ہم نکل گئے تھے اور ہندوستان ہی پہنچ سکے تھے۔ لیکن ہندوستان جا کر رہنا، اس کے لوگوں کو دیکھنا اور اس کے بے حد پُر فسوں تنوع اور ڈائیورسٹی کو دیکھنا۔ یہ سب بہت اچھا لگا۔ بہر حال ہندوستان کوئی اتنا غیر ملک تو ہے نہیں۔ اردو ادب کا آغاز وہیں سے ہوا جیسے میں جب بمبئی گئی تو میں تو یہی سوچ رہی تھی کہ یہیں کرشن چندر رہتے تھے، عصمت رہتی تھیں، یہیں جذبی ہوتے تھے، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی اور ان سب کو پناہ ملی تھی بمبئی میں یا منٹو بمبئی میں رہے۔ تو ہمارے ذہنوں میں یہ ہندوستان ہمیشہ سے تھا۔
سوال: کتنا مختلف پایا آپ نے ہندوستان کو پاکستان سے، جیسا کہ آپ نے کہا کہ واحد راستہ بچا تھا لیکن پھر بھی زندگی یہاں کے مقابلے میں کیسی لگی؟
ف ر: بہت بڑا فرق تھا، کیونکہ انیس سو اکیاسی سے انیس سو ستاسی تک وہاں تھی۔ وہاں جاکر، دلی پہنچتے ہی دلی جاکر مجھے سب سے پہلے یہ ہی خیال آیا تھا کہ یہ جو آل انڈیا ریڈیو ہے اردو کے کتنے ادیب وابستہ رہے ہیں اس سے، کتنی چیزیں ان کی لکھی ہوئی تھیں جو کہ ریڈیو کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی تھیں۔ ایک تو لگتا ہے کہ آدمی تاریخ کے اچانک روبرو آ گیا ہے۔ وہاں جاکر احساس ہوتا ہے کہ انگریز کو گئے ہوئے اتنا عرصہ نہیں گذرا یہ احساس پاکستان میں ہوتے ہوئے نہیں تھا۔ کیوں نہیں تھا؟ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے انگریز کی جو سیٹ آف پاور (مرکزی علاقۂ اقتدار) اس علاقے میں نہیں تھی جن میں پاکستان بنا۔ پھر ان کی بنائی ہو سب چیزیں سامنے آجاتی ہیں۔ انہوں نے جو پورا سسٹم قائم کیا تھا کالونیل سسٹم، ایڈ منسٹریشن کا سسٹم وہ سب کچھ جوں کا توں تو نہیں ہے مگر تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ آپ ابھی تک دیکھ سکتے ہیں (ہنستے ہوئے) یہاں تو وہ سسٹم تھا ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی سسٹم رہا ہی نہیں ہے۔ لہذا اس کا یہاں احساس نہیں ہوتا تھا، وہاں پر سب سے بڑا احساس ایک تو یہ ہوا، دوسرا اکثریت دوسرے مذہب کی تھی جو یہاں پر تو نہیں ہے۔یہاں تو آپ ایک پتھر بھی اٹھائیں گے تو پتہ چلے گا کہ نیچے سے کئی مسلمان نکل آئے ہیں۔ یہاں پر تو صرف مسلمانوں سے ہی واسطہ پڑتا تھا، وہاں بالکل یہ نئی چیز تھی یہ ایک طرح سے مختلف بھی تھا۔ مگر یہ سچی بات ہے وہاں مارشل لا نہیں لگتے رہے ہیں۔ ایک کھلا ہوا ماحول ہے۔ لوگ ریلیکس نظر آتے ہیں۔ سڑک پر آپ کسی چہرے کو دیکھتے تو ریلیکس نظر آتا تھا۔ پاکستان کے مقابلے میں ایک تو یہ بڑا فرق تھا اور دوسرا یہ کہ بہت سے چیزوں کا آپ کو اندازہ ہوتا ہے۔ آپ کو یہ اندازہ وہاں جاکر اور رہ کر ہوتا ہے کہ خود پاکستان کی تحریک کیوں چلی ہوگی۔ دیکھیں ہندو اور مسلمان وہاں بڑے تواتر کے ساتھ چھوٹے پیمانے پر لیکن کافی تواتر کے ساتھ چھوٹے موٹے کمیونل فسادات تو ہوتے رہتے تھے۔ نزدیک یا دور، آپ سوچتے ہیں کہ بھئی یہ مسئلہ اس وقت بھی ہوگا، اس کے لیے لوگوں نے کیا سوچا کیا نہیں سوچا، کیا محسوس کیا، کیا نہیں محسوس کیا۔ یہ سب چیزیں پتہ چلتی ہیں۔ بات یہ ہے کہ یہاں ہم گرفتار ہونے والے تھے۔ (مسکراتے ہوئے) اس طرح سے سوچیں آپ کہ گرفتاری سے بچنے کے لیے کہیں گئے لیکن ذہنی اور جذباتی طور پر جس تحریک کا آپ حصہ ہوتے ہیں، آپ اس سے جڑے ہی رہتے ہیں۔ اس کے بارے میں سوچتے ہی رہتے ہیں۔ اسی کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھتے ہی رہتے ہیں۔اول دن ہی سے وہاں سے واپس آنے کا ارادہ تھا۔ بھئی واپس آئیں گے، جب بھی موقعہ ملا۔
سوال : پہلی ملازمت آپ نے کب کی؟
ف ر : پہلی ملازمت میں نے ریڈیو پر کی تھی اور فوجی بھائیوں کے لیے پروگرام پیش کیا کرتی تھی حیدرآباد میں۔
سوال: پریزینٹر کے طور پر؟
ف ر : ہاں پریزینٹر کے طور پر، لکھتی بھی تھی ریڈیو کے لیے۔
سوال : اسٹاف آرٹسٹ کے طور ؟
ف ر: حقیقت میں ہوتی تو وہ تنخواہ ہی تھی، مگر کنٹریکٹ تھا۔ آرٹسٹ کی حیثیت سے تو نہیں شاید ابھی اسے آؤٹ سائیڈ کنٹری بیوٹر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن وہ ایک تنخواہ والی ملازمت تھی تب میں شاید انٹر میں پڑھتی تھی۔
سوال : یہ تو ایک طرح کا جزوی کام تھا شاید، پہلی ملازمت کہاں اختیار کی؟
ف ر : پہلی ملازمت میں نے لندن میں کی تھی، ایک میرین انشورنس کمپنی میں ایک کلیریکل جاب تھی، بینک کے ایریا میں۔ پاکستان آنے کے بعد میں نے آر لنٹاس میں کام کیا۔ وہاں فلمیں بناتی تھی اور ہیڈ آف کریٹیو ڈیپارٹمنٹ تھی۔ یہ تھا میرا عہدہ وہاں پر۔ کیوں کہ میں فلم ٹیکنیک کا کورس کرکے آئی تھی لندن سے۔ یہ ایک سینئر انتظامی عہدہ تھا۔ یہاں اس قابلیت کا اور کوئی شخص ہی نہیں تھا۔ سوائے ایک کے، وہ تھے مشتاق گزدر۔ انہوں نے اسی سکول سے پڑھا تھا لندن سکول آف فلم ٹیکنیک سے۔
سوال : آپ نے آر لناٹس کے علاوہ کیا ملازمت کی؟
ف ر : لنٹاس کے بعد میں نے دوسری اور کوئی ملازمت نہیں کی تھی اور وہ چھوڑ دی تھی۔ کیوں کہ ہم نے سوچا تھا کہ ہم سرمایہ داروں کی خدمت تو نہیں کریں گے۔ مگر بہرالحال نوکری تو کہیں کرنی تھی، تو پھر میں ایس کے این ایف جو فارماسیوٹیکل کمپنی ہے، وہاں میں نے کچھ عرصے کام کیا تھا۔
سوال : آپ رسالہ نکالنا چاہتی تھیں، وہ تجربہ کیسا رہا، ’آواز‘ کا خیال کیسے آیا؟
ف ر : ایسے آیا کہ ایک فورم بنایا جائے۔ کیا کریں بھئی ہیں تو ہم لکھنے والے، اس طرح کی نوکری کرنا نہیں چاہتے جس میں اپنے نظریات پر کمپرومائز کرنا پڑے، لہٰذا کیا کیا جاسکتا ہے۔ تو یہ صورت نظر آئی تھی کہ ایک رسالا نکالا جائے اور جو کچھ کہنا چاہتے ہیں اس میں کہا جائے۔ ساتھ ساتھ یہ ہے کہ گھر بھی چلائیں اپنا۔
سوال : اس کے بعد اب صورتحال کیسے نظر آتی ہے؟
ف ر : یہ تو بہت لمبی چھلانگ لگا رہے ہیں ہم، اس کے بعد تو بہت کچھ ہوا، ضیاالحق صاحب کا دور آیا پھروہ دور تقریباً ختم ہوگیا، ضیاالحق صاحب نہیں رہے۔ پھر بینظیر صاحبہ کی حکومت آئی، پھر وہ ختم ہوئی۔ جس میں میں نے نیشنل بک کونسل میں کام کیا تو پتہ چلا کہ سرکاری ادراوں کی کتنی بڑی پہنچ ہے۔ وہاں ہرگز کچھ نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہماری بیورو کریسی کو تربیت ہی اس طرح سے دی گئی ہے کہ کچھ بھی نہ کیا جائے۔ ایک افسوسناک قسم کی صورتحال ہے۔ اس کا فرق مجھے ہندوستان میں بھی لگا تھا مجھے لگا تھا کہ ہندوستان کی بیورو کریسی میں اس حد تک چیزیں نہ ہونے دینے کا مادہ کم ہے، لیکن وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں، ایک طرح کی آئیڈیل ازم ان لوگوں میں موجود ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ بات محسوس ہوتی تھی وہاں پر۔ لیکن یہاں پر تو اس طرح کی کوئی چیز نہیں۔ اس کے بعد پھر نواز شریف کا دور آیا جس میں انہوں نے مجھے ’را ‘ کی ایجنٹ ڈکلیئر کیا تھا۔ میرا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا تھا۔ یہ مسئلہ قومی اسمبلی میں اٹھا تھا، بینظیر پر جو سات الزامات لگائے گئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا، کہ آپ نے فہمیدہ ریاض کو ایک اہم عہدہ دے دیا حالانکہ وہ کوئی خاص اہم عہدہ نہیں تھا۔ لیکن ان پر یہ ایک الزام تھا۔ وہ دور بھی ختم ہوا اور ایک دن پتہ لگا کہ پرویز مشرف صاحب آ گئے ہیں۔ تو تب سے اب تک فرق تو آیا نہ کافی۔ رسالے کے حوالے سے جو تم پوچھ رہے تو، تب سے اب تک فرق تو آیا ہے نا۔ اب جو انفارمیشن میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے تبدیلیاں آئی ہیں اور اس کا جو ایک ریولوشن بڑا زبردست آیا ہے۔ اس نے دنیا ہی کو نہیں پاکستان کو بھی بدل دیا ہے بہت کچھ۔ اب یہ دیکھیں بہت سے ٹیلی ویژن آ گئے ہیں
| 2020-05-29T00:26:00
|
https://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%DB%81-%D9%81%DB%81%D9%85%DB%8C%D8%AF%DB%81-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B6-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%A7%D9%82%D8%A7%D8%AA-%D8%A8%D8%B4%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DB%81-%D8%A8%DB%8C-%D8%A8%DB%8C-%D8%B3%DB%8C-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88-%D9%85%D9%86%D8%B8%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%85%DB%81.14566/
|
فلسطینیوں پر صیہونی فوجیوں کی فائرنگ 2 شہید84 زخمی - Sahar Urdu
Aug ۱۱, ۲۰۱۸ ۰۹:۳۸ Asia/Tehran
فلسطین کی وزارت صحت کے مطابق صیہونی فوجیوں نے فلسطینیوں کے پرامن واپسی مارچ پر وحشیانہ فائرنگ کرکے ایک بار پھر دو فلسطینیوں کو شہید اور اور 84 کو زخمی کردیا ہے۔
ادھر فلسطینی قیدیوں کے امور کے مرکزنے بھی خبردی ہے کہ صیہونی حکومت نے صرف جولائی کے مہینے میں ساڑھے پانچ سو فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے - خبروں میں بتایا گیاہے کہ صیہونی فوجیوں نے جولائی میں جن فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے ان میں اسّی بچے اور انیس خواتین بھی شامل ہیں جبکہ صیہونی فوجیوں نے ان ستائیس غیر ملکی امدادی کارکنوں کو بھی گرفتار کرلیا ہے جو واپسی نامی فلوٹیلا کے ساتھ غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لئے غزہ کی جانب روانہ ہوئے تھے - ان غیر ملکی امدادی کارکنوں کو صیہونی فوجیوں نے اسدود بندرگاہ کے قریب گرفتار کیا تھا۔
| 2019-07-24T02:41:51
|
http://urdu.sahartv.ir/news/islamic_world-i332977
|
اوپن یونیورسٹی ملک کے دیگر شہروں میں بھی ای سی سی ای کانفرنس منعقد کرے گی،وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 مئی2018ء) علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں فیکلٹی آف ایجوکیشن ، ایچ ای سی ، وزارت تعلیم اور رپانی فائونڈیشن کی مشترکہ کانفرنس کے مقررین بچوں کی نگہداشت اور تعلیم کی قومی پالیسی بنانے پر متفق ہوگئے اور بچوں کو قومی ترقی کے مرکزی دھارے میں لانے کے لئے سفارشات مرتب کرلئے ۔ اِن سفارشا ت میں ای سی سی ای کے لئے پالیسی کی تشکیل ، قانون سازی ، ٹرانسفارمیٹیو پیڈاگوجی ،ْیورسٹی اینڈ انکلوژن ، مہم میں والدین اور معاشرے کی شمولیت اور ای سی سی ای میں مزید سرمایہ کاری یعنی بجٹ میں اضافہ شامل تھے۔
یہ سفارشات کانفرنس کے اختتامی تقریب میںوزارت تعلیم کے جائنٹ ایجوکیشنل ایڈوائزر پروفیسر محمد رفیق طاہرنے پیش کئے۔افتتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسل پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اعلان کیا کہ اوپن یونیورسٹی ملک کے دیگر شہروں میں بھی ای سی سی ای کانفرنس منعقد کرے گی اور اس سفر کا آغاز گلگت بلتستان سے کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اہم مقامات پر کانفرنسسز منعقد کرنے کے بعد آئندہ سال یونیورسٹی کی اِسی آڈیٹوریم میں عالمی کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے کہا کہ کہ اوپن یونیورسٹی آئندہ دو سے تین ہفتوں میں "اوپن ڈسٹنس لرننگ او ڈی ایل "کی پاکستان کی پہلی قومی پالیسی متعارف کررہی ہے۔ پروفیسر محمد رفیق طاہر نے کہا کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے بہتر حکمت عملی سے یونیورسٹی میں ایک مثالی علمی ماحول پیدا کیا ہے ، اُن کے دور میں وزارت تعلیم کو یونیورسٹی کی سنگل شکایت بھی موصول نہیں ہوئی ہے ، ہر روز نئے اقدامات ، ریسرچ جرنل کی اشاعت ،ْ ،نفرنسسز کے انعقاد مختصریہ کہ سب اچھا ہے کی خبریں سنتے ہیں۔
رفیق طاہر نے مزید کہا کہ ای سی سی ای پر کام کے آغاز میں ہمیں نہیں لگ رہا تھا کہ ہم اس ہدف میں کامیاب ہوجائیں گے ، ہم نے کسی موڑ پر ہمت نہیں ہاری اور کوشش جاری رکھی ۔ انہوں نے کہا کہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ،ْ پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی اور اُن کی ٹیم جن میں پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود اور ڈاکٹر فضل الرحمن سرفہرست ہیں نے نمایاں کردار ادا کیا ۔ انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر ناصر محمود یونیورسٹی کے متحرک ترین اور انرجیٹک ڈین ہیں۔رفیق طاہر نے ڈاکٹر فضل الرحمن کی خدمات کو بھی شاندار الفاط میں سراہا ۔
| 2018-09-24T21:21:51
|
https://www.urdupoint.com/daily/livenews/2018-05-04/news-1516053.html
|
End of preview. Expand
in Data Studio
README.md exists but content is empty.
- Downloads last month
- 159